جمعہ, 17 مئی 2024
×

Warning

JUser: :_load: Unable to load user with ID: 45

ایمزٹی وی(کراچی)بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر ہمارے پیش کیے گئےمطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تو 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش کے جلسے میں لانگ مارچ کا اعلان ہوگا جس کے بعد حکومت کو معلوم ہوجائے گا کہ عوامی اپوزیشن کا مظاہرہ کیسا ہوتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کارساز پر سلام شہداء ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کو چار مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ

فوری طور پر وزیر خارجہ تعینات کیا جائے

پاناما لیکس کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے بل کو منظور کیا جائے

سی پیک منصوبے پر ہونے والے اے پی سی پر عملدرآمد کیا جائے

نیشنل ایکشن کمیٹی قائم کی جائے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ہمارے چار مطالبات پر عمل نہیں کر ےگی تو پھر 27 دسمبر کو لانگ مارچ کا اعلان کیا جائے گا اور پھر حکمرانوں کو معلوم ہوجائے گا کہ عوامی اپوزیشن کا دھرنا کیسا ہوتا ہے اور عوام کس طرح دما دم مست قلندر کرتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی حق اور باطل کا معرکہ آج بھی جاری ہے، اُس دور باطل سیاسی حربے استعمال کررہا ہے اور اپنے مخالفین کو طاقت کے ذریعے دبانے کی کوشش کررہا ہے تاہم پیپلزپارٹی کل کی طرح آج بھی مظلوموں کے حقوق کی آواز بلند کررہی ہے‘‘۔

چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ’’پاکستان میاں نوازشریف کی پالیسیوں کی وجہ سے کمزور ہورہے یہی وجہ ہے کہ آج بھارت کا دہشت گرد اور فسادی جسے امریکا ویزہ نہیں دیتا تو وہ پاکستان کو دہشت گردی کا درس دے رہا ہے، مودی کون ہوتا ہے ہمیں دہشت گرد کہنے والا ؟ جبکہ اُس نے گجرات کے بعد کشمیر میں بھی مظالم کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہا ’’مودی کشمیر کے مظالم چھپانے کے لیے پاکستان پر بے بنیاد الزامات عائد کرتا ہے جبکہ ہمارے بزرگ میاں صاحبان اسے اپنی نواسی کی شادی میں مدعو کرتے ہیں تو دوسری طرف چاچا عمران بھارت کے نجی دورے پر مودی سے ملاقاتیں کرتے ہیں‘‘۔

مسلم لیگ ن پر تنقید کرتے ہوئے بلاول کا کہنا تھا کہ ’’حکومت نیشنل ایکشن پلان کے عملدرآمد کے معاملے پر بری طرح ناکام ہوگئی کیونکہ نیشنل ایکشن پلان پورے ملک کے لیے بنایا گیا تھا تاہم اُس کا اطلاق مخصوص صوبوں پرکیا گیا، انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی مگر مجبور کسانوں کو گرفتار کر کے اُن کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کرلیتی ہے‘‘۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’’ہم میاں صاحب کے خلاف نہیں مگر اُن کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہیں اور جب تک وہ اقتدار پر بیٹھے ہیں ہم اُن کی خامیوں کو عوام میں بیان کرتے رہیں گے‘‘، انہوں نے کہا کہ حکومت کی خارجہ اور معاشی پالیسی پر اختلاف ہے آج بھی حکومت کو خبردار کرتا ہوں کہ معاشی پالیسی کو درست کریں اور سی پیک کے معاملے پر ہونے والے اختلافات کا حل نکالا جائے‘‘۔

پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے حوالے سے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر کے معاملے پر ہماری جماعت نے حکومت سے اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا مگر ایک جماعت نے اُس کا بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے دشمن ملک کو تنقید کا موقع ملا، انہوں نے انکشاف کیا کہ حکومت نے کشمیر کے حوالے سے پیش کی گئی قرارداد سینسر کردی ہے‘‘۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے اعلان کیا کہ ’’پاکستان میں بسنے والی اقلیتوں سے اظہار یکجہتی کے لیے 30 اکتوبر کو کراچی میں ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی دیوالی منائی جائے گی جس کے ذریعے مودی اور عالمی دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان میں سب کو برابر کے حقوق دیے جاتے ہیں‘‘۔

بلاول بھٹو نے اسٹیل مل اور پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ اسٹیل مل اور قومی ائیرلائن کو ذاتی کاروبار کی طرح چلانے چاہتے ہیں مگر ہم یہ نہیں ہونے دیں گے، یہ صرف کراچی کا شو ہے ابھی پارٹی شروع ہوئی ہے ‘‘۔

 
 


ایمزٹی وی(گلگت بلتستان) پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے پی پی پی کے اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ یکم نومبر کو دنیور میں سی پیک،حق ملکیت، حق حکمرانی اور اپنے حقوق کیلئے جلسہ کرینگے۔ اسی دن ہی جی بی حکومت کے کرپشن اور نا انصافیوں کا وائٹ پیپر بھی جاری کرینگے۔ اب فیصلہ عوامی عدالت میں ہو گا۔ مزید برداشت نہیں کرینگے۔ حقوق لے کر دم لینگے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے چیئر مین بلاول بھٹو نے پالیسی دے دی ہے اب پالیسی پر چلتے ہوئے اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلیں گے اور اس وقت تک سڑکوں پر ہونگے جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سی پیک میں ہمیں مکمل نظر انداز کر دیا ہے ہم نے بار ہا حکومت کو متنبہہ کیا کہ ہمارے مطالبات حل کرے مگر کرپٹ حکومت ٹس سے مس نہیں ہے لہٰذا غور و خوص کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب تمام مطالبات عوامی عدالت میں پیش کرینگے اور عوامی عدالت سے بل پاس کرائینگے،جلسہ اس سڑک پرکریں گے، جس سے ہمیں محروم رکھا جا رہا ہے۔ گلگت جلسے کے بعد ہر ضلع میں جلسے کرینگے اور اب کمر کس چکے ہیں۔ گلگت بلتستان کے حقوق کو کسی صورت پامال نہیں ہونگے دینگے۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے جمیل احمد، محمد موسیٰ، سید رضی الدین، امیر محمد خان، افتاب حیدر، فدا اللہ، عمران ایڈووکیٹ، منظور بگورو، حسن پاشا و دیگر نے کہا کہ جی بی کے حقوق ھق ملکیت اور حق حاکمیت و سی پیک میں حصہ اور آئینی حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلنے کیلئے تیار ہیں اور دنیور شاہراہ قراقرم پر عوام کا سمندر ہو گا حکمران ٹھیکے بیچنے اور کرپشن کرنے میں مصروف ہیں جبکہ صوبائی کابینہ کے بیانات کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ سی پیک میں ہمیں کچھ نہیں مل رہا ہے یکم نومبر سے جیالے بتائینگے کہ عوامی طاقت کیا ہوتی ہے اور اپنے حقوق لئے بغیر گھر واپس نہیں جائینگے۔

صوبائی صدر امجد ایڈووکیٹ نے جلسے میں وائٹ پیپر اور ریلی کیلئے کمیٹیاں بھی تشکیل دیدی۔ جس میں وائٹ پیپر کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر علی مدد شیر، آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہ آفتاب حیدر، فنانس کمیٹی کے سربراہ جاوید حسین اور رابطہ کمیٹی میں رضی الدین، فدا اللہ، جمیل احمد، محمد موسیٰ، انجینئر اسماعیل اور امیر محمد شامل ہونگے جو دیگر جماعتوں کو بھی جلسے میں شمولیت کیلئے دعوت دینگے۔ جبکہ ریلی کے انتظامات کی نگرانی جمیل قریشی کرینگے۔


ایمزٹی وی(اسلام آباد)چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں متحد ہیں، وزیراعظم سے کہا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے ،ہندو قوم پرستوں کے رد عمل سے بھارت کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر متحد ہو کر بھارت کو جواب نہیں دیا تو ہماری پوزیشن کمزور ہوگی،جارحیت کے باعث بھارت اخلاقی جواز کھوچکا ہے ،سی پیک حقیقت ہے ،اس کا وژن سابق صدر زرداری نے دیا تھا ،صرف اور صرف کشمیر کے ایشو پر حکومت کا ساتھ دیا ہے،قومی یکجہتی ہوتی تو سی پیک جیسا منصوبہ متنازع نہ ہوتا ،تمام معاملات کے حل کا پلیٹ فارم پارلیمنٹ ہے،وزیراعظم نواز شریف نے خود کہا ہے کہ احتساب ہونا چاہیے،میں نہیں سمجھتا کہ حکومت احتساب بل میں رکاوٹ ڈالے گی۔

بلاول کا کہنا تھا کہ عمران خان نے بہت اچھے نکات اٹھائے ہیں،ان کا نوجوانوں کو متحرک کرنا قابل ستائش ہے لیکن جب وہ سولو فلائٹ کرتے ہیں تو دیگر پارٹیوں کے لیے مشکل ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کامیاب اسٹریٹجک سیاست کرتی ہے ،پیپلز پارٹی بالکل احتجاج کرے گی اور اس کا حجم بھی بڑا ہوگا ، کبھی بھی جمہوریت کے خلاف کسی چیز میں شامل نہیں ہوسکتا، مسئلہ کشمیر پر پاکستانی قوم کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتی،اچھے ، برے طالبان میں فرق نہیں کرتے ،دنیا کو بتانا ہے ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں ۔

بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ وزیرا عظم نےخود کہا ہے کہ احتساب ہو اور وزیر اعظم سے شروع ہو، وزیر اعظم نواز شریف سے ذاتی اختلافات نہیں،بلاول بھٹونواز شریف جسے چاہیں دوست بنائیں،ان کا ذاتی معاملہ ہے،امن ذاتی سطح پر نہیں ریاستوں کے درمیان قائم ہوتاہے


ایمزٹی وی(اسلام آباد)وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت پارلیمانی جماعتوں کے رہنماﺅں کا اجلاس شروع ہو گیا ہے جس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سمیت کنٹرول لائن پر صورتحال سے متعلق بریفنگ دی جا رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے اجلاس میں شرکت کیلئے آنے والے افراد کا خود استقبال کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم اور دیگر سربراہان کی جانب سے مثبت روئیے اور گرمجوشی کا اظہار کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ، اعتزاز احسن، شیری رحمان، قمرالزمان کائرہ، حنا ربانی کھر، فرحت اللہ بابر، تحریک انصاف کے شاہ محمد قریشی اور شیریں مزاری، اے این پی کے غلام احمد بلور، جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی، ایم کیو ایم پاکستان کے فاروق ستار، حاصل بزنجو اور حکومتی وزراءپرویز رشید، خواجہ آصف اور چوہدری نثار علی خان بھی شریک ہیں۔

ذرائع کے مطابق مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ اجلاس کے شرکاءکو پاک بھارت کشیدگی، کنٹرول لائن کی صورتحال، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق بریفنگ دے رہے ہیں جبکہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز بھی اجلاس کے شرکاءکو بریفنگ دیں گے۔

واضح رہے کے عوامی مسلم لیگ کے رہنماء شیخ رشیدکو اس اجلاس میں شرکت کیلئے مدعو نہیں کیا گیا اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے بھی اس کی تصدیق کی تھی جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے شیخ رشید کو مدعو نہ کرنے پر مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر حکومت یکجہتی پیدا کرنا چاہتی ہے تو پھر شیخ رشید کو بھی مدعو کیا جائے۔

 
ایمز ٹی وی (لاہور) سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کو افغانستان سے بازیاب کرا لیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ علی حیدر گیلانی کو انتخابی مہم کے دوران 9 مئی 2013 ء کو اغوا کیا گیا تھا اور اس کے بعد ان کی بازیابی اور تلاش کیلئے کوششیں جاری رہیں ۔ علی حیدر گیلانی کو تین سال بعد افغانستان سے بازیاب کرا لیا گیا ہے ۔ افغانستان کے سفیر نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس حوالے سے ٹیلی فون کیا اور انہیں ان کے بیٹے کی بازیابی کی خوشخبری دی ۔ اس سے قبل سابق گورنر سلمان تاثیر کے بیٹے کو بھی افغانستان سے ہی بازیاب کرایا گیا تھا ۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر پیغام جاری کیا ہے کہ علی حیدر گیلانی کو بازیاب کرا لیا گیا ہے -

ایمز ٹی وی (کراچی) سابق صدر آصف علی زرداری نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بیان قابل تعریف ہے۔ پاک فوج اہم ترین ادارہ ہے اور مدت ملازمت میں توسیع کی روایت کو جڑ نہیں پکڑنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا جنرل راحیل نے ثابت کیا افراد سے ادارے زیادہ اہم ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا جنرل راحیل نے بہت اچھے فیصلے کیے۔ ان کے بعد آنے والے بھی ان کی روایات کو برقرار رکھیں گے۔ تجزیہ کار حسن عسکری نے کہا ہے جنرل راحیل شریف کے فیصلے سے تمام تنازعات ختم ہو گئے ہیں۔ حسن عسکری نے فیصلے کو انتہائی اہم قراردیا ہے۔ واضح رہے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے دلچسپی نہیں رکھتے ۔آرمی چیف کا کہنا ہے کہ پاک آرمی ایک عظیم ادارہ ہے اور میں آئندہ بھی قومی مفاد کو مقدم رکھوں گا ، میرے لئے یہ بات باعث فخر ہے کہ میں نے دنیا کی ایک سب سے بہادر فوج کی قیادت کی۔ 

ایمز ٹی وی(کراچی)جوش خطابت میں سیاسی رہنماؤں کبھی کبھار تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں لیکن ہمارے وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زبان اور یاداشت ایسی ہے کہ جس کی وجہ سے آئے دن کوئی نا کوئی چٹکلہ چھوٹ ہی جاتا ہے ایسا ہی موقع ایگلیٹ پولیس کے 28 ویں بیچ کی پاسنگ آؤٹ تقریب میں پیش آیا جب انہیں ایک شعر مکمل کرنے کے لئے بھی اپنے سیکیورٹی اسٹاف کی ضرورت پڑ گئی۔

جگہ جگہ اپنی غائب دماغی کا مظاہرہ کرنے والے 83 سالہ قائم علی شاہ توکپتانی چھوڑنے کو تیارنہیں لیکن پیپلز پارٹی بھی انہیں قائم رکھنے پرمصر ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی ایسے سنجیدہ چٹکلے چھوڑتے ہیں جس پر پہلے ہنسی اور پھر غصہ آنے لگتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کہاں کھڑی ہے ،ایسا ہی واقعہ  رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹرکراچی میں ایگلیٹ پولیس کے 28 ویں بیچ کی پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کے دوران پیش آیا جب قائم علی شاہ کو اپنا شعر ممل کرنے کے لئے بھی دوسروں کی مدد لینا پڑ گئی۔

قائم علی شاہ نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے علامہ اقبال کا مشہورومعروف شعرپڑھنے کی کوشش کی اور ایک ہی صف پر کھڑے ہوگئے ہی پراٹک کررہ گئے۔ اس دوران ان کے سیکیورٹی اسٹاف نے محمود وایازیاد دلایا تو انہوں دوسرا مصرعہ نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز مکمل کیا

ایمز ٹی وی (کراچی ) پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما مخدوم امین فہیم گزشتہ2روز سے کراچی کے نجی اسپتال میں زیر علاج ہیں ،اسپتال زرائع کے مطابق امین فہیم کو شدید کمزوری کا سامنا ہے ،ڈاکٹرز کے مطابق امین فہیم خون کے سرطان میں مبتلا ہیںاور شدید کمزوری کے باعث ان کی صحت میں بہتری سست روی کا شکار ہے ۔

ایمز ٹی وی (فارن ڈیسک) لندن میں نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ناراض رہنما ذوالفقار مرزا نے کہاکہ پہلے وہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد سے متاثر تھے اور اب بلاول بھٹو زرداری کی پیروی کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ لندن میں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی انہوں نے ملنے کی کوشش کی، کونکہ وہ جانتے ہیں کہ آصف زرداری کے لوگ انہیں ملنے نہیں دیں گے۔ 

 ذوالفقار مرزا کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اختلافات کی باتیں انہوں نے نہیں گھڑیں، ان سے پہلے ہی ان اختلافات کی باتیں ہورہی تھیں جبکہ قائم علی شاہ اور فریال ٹالپور کے علاوہ آصف زرداری بھی اس کی وضاحتیں کررہے تھے۔

ذوالفقارمرزا نے مزید کہا کہ جتنا وہ آصف علی زرداری کے قریب رہے ہیں کوئی اتنا قریب نہیں رہا۔ہم دونوں کی دوستی اس وقت سے ہے کہ جب نہ انہیں معلوم تھا کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے اور نہ ہی آصف علی زرداری کو کہ انکی شادی بےنظیربھٹو سے ہوگی۔ انہوں نے اپنی 45 سالہ دوستی میں کبھی آصف زرداری کو کسی بات پر انکار نہیں کیا اور نہ ہی کوئی سوال پوچھا۔  پہلے وہ ایک اے یعنی الطاف حسین سے خطرہ محسوس کرتے تھے اور اب دوسرا اے بھی ان سے ناراض ہوگیا ہے۔ اب انکا جھگڑا ڈبل اے کے ساتھ ہے۔

 

ایمز ٹی وی (اسلام آباد) پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین کا یہ ٹوئٹر پیغام، ان کی پارٹی قیادت اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے آئین میں 21 ویں ترمیم کی حمایت کے فیصلے سے بالکل متصادم ہے۔اس پیغام نے بلاول کے اپنے والد آصف علی زرداری سے اختلافات کی میڈیا رپورٹس کو بھی مزید ہوا دی ہے۔واضح رہے کہ چند میڈیا رپورٹس کے مطابق بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری کے درمیان گزشتہ دنوں کچھ اختلافات نے جنم لیا اور اسی وجہ سے بلاول 27 دسمبر کو اپنی والدہ بینظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کے لیے لاڑکانہ نہیں آئے ، جب کہ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔جبکہ پیپلز پارٹی کے یوتھ ونگ کی موجودگی میں ' ٹیم بلاول' نامی ویب سائٹ کا اجراء بھی بلاول بھٹو زرداری کے لیے اپنا حمایتی گروپ بنانے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔پیپلز پارٹی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ '21 ویں ترمیم کے خلاف بلاول کے اس مضبوط ٹوئٹر پیغام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس انتہائی اہم معاملے پر ان سے مشاورت نہیں کی گئی ، یہی وجہ کہ انھوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے'۔ان کا کہنا تھا کہ ڈکٹیر شپ کے خلاف پیپلز پارٹی کی جدوجہد کو مد نظر رکھتے ہوئے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی مایوسی اور غصہ بجا اور قابل فہم ہے۔'بلاول چاہتے تھے کہ ان کے والد اور پارٹی اس ترمیم کی مخالفت کریں جو آئین کو فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دیتی ہے، تاہم لگتا ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد پیپلز پارٹی کے پاس فوجی عدالتوں کے حق میں فیصلہ دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا'۔پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل لطیف کھوسہ نے ڈان کوبتایا کہ پارٹی میں ہر کوئی 21 ویں ترمیم کے حوالے سے ایک نکتے پر متفق تھا۔ 'ہم نے یہ کڑوی گولی قومی مفاد کے لیے نگلی ہے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ وزیراعظم یا دیگر سیاسی جماعتیں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ضروری فوجی عدالتوں کے قیام میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام دیں'۔لطیف کھوسہ کے مطابق انھوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کے اراکین اسمبلی سے بھی بات کی، جو فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ووٹ دینے پر خوش نہیں تھے۔' لیکن پشاورمیں طالبان دہشت گردوں کے حملے میں معصوم بچوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے ملک میں امن کے قیام کے لیے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا'۔ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو چاہتے تھے کہ جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کے لیے سیاسی طاقتیں اکٹھی ہوجائیں۔دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرادری کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ وہ بلاول بھٹو کے اس ٹوئٹر پیغام کے حوالے سے سرعام کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

Page 15 of 15