ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال عزیزکا کہنا تھا کہ عمران خان ہمیں اخلاقیات کا درس نہ دیں انہیں تو انسداد دہشت گردی عدالت نے اشتہاری قرار دے رکھا ہے وہ اسی لئے سپریم کورٹ نہیں آتے کیوں کہ وہ اشتہاری مجرم ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ اصل عدالت عوام کی رائے ہے اسی عوامی رائے کو ختم کرنے کے لئے عمران خان نے دھرنے دئے تھے
ایمزٹی وی (اسلام آباد)مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فضل چوہدری سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ سیاسی میدان میں کوئی بھی مخالف نوازشریف کا مقابلہ نہیں کرسکتا
سپریم کورٹ کو سب علم ہے کہ کیا کرنا ہے اور ہمیں امید ہے کہ عدالت حق اور سچ پر فیصلے دے گی۔ ان کا کنا تھا کہ فواد چوہدری جیسے مشیروں کی وجہ سے ہی پرویز مشرف آج پاکستان نہیں لوٹ سکتے
یہ تحریک انصاف کو بھی لے ڈوبیں گے اور 2018 کے اتنخابات میں سب کو پتہ چل جائے گا کہ کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
ایمزٹی وی (اسلام آباد)سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں پاناما کیس کی سماعت جاری ہے جس میں وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل جاری ہیں ۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے وزیر اعظم کے وکیل کی توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ آپ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتراض اٹھا یا ہے لیکن اس میں موجود دستا ویزات کی تردید نہیں کی اور نہ ہی انہیں چیلنج کیا ۔اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ہم سے کسی دستا ویز پر موقف ہی نہیں مانگا گیا ۔جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت غیر متنازعہ دستا ویزات پر فیصلہ دے سکتی ہے ۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے کہا کہ تحقیقات میں نیب کو کیا مسئلہ ہے ؟، چیئر مین نیب کو ہدایات جا ری کی ہیں کہ وہ اس کیس کی تحقیقات مکمل کر کے ریفرنس فائل کریں ۔اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بتا یا گیا تھا تمام اثاثوں کے ذرائع موجود ہیں ،ہم ابھی تک ذرائع کا انتظار کر رہے ہیں۔
ایمزٹی وی (اسلام آباد)سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد پاناما کیس کی دوسری سماعت جاری ہے جہاں تین رکنی بینچ وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث سے سخت سوالات کر رہی ہے ۔عدالت نے وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا ہے کہ وزیر اعظم نے دبئی میں کام کرنے کیلئے اقامہ تو لیا تھا نا؟ تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ کے ممبر جسٹس عظمت سعید شیخ نے وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ وزیر اعظم نے دبئی میں کام کرنے کیلئے اقامہ تو لیا تھا نا؟ جس پر وکیل نے موقف اپنایا کہوزیر اعظم نے ایف زیڈ ای کی بنیاد پر 2012ءمیں اقامہ لیا تھا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کے موکل نے تو اپنے خالو کو بھی نہیں پہچانا ، کیاآپ کی اپروچ یہ تھی کہ جے آئی ٹی کو کچھ نہیں بتانا ؟فیملی کی اپروچ کیا ہے آپ دیکھ رہے ہیں ، لندن فلیٹس کا مالک کون ہے فیملی کو کچھ پتہ ہی نہیں۔سوالات کے جواب میں کہا گیا میں نہیں جانتا۔
ایمزٹی وی (اسلام آباد) سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے اطلاعات کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ میں شریف خاندان کی جمع کرائی گئی دستاویزات تصدیق شدہ ہیں جب کہ جےآئی ٹی نے غیر تصدیق شدہ دستاویزات پیش کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اب غیر تصدیق شدہ دستاویزات کی گواہی کون دے گا۔ جےآئی ٹی ابھی تک کس آئین و قانون تحت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو جو اختیارات دیئے تھے اس پر کہاں کہاں تجاوز ہوا ہمیں اس کا جواب چاہئے۔ مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے دن سے ہی جے آئی ٹی پر تحفظات تھے اور آج بھی اس پر قائم ہیں، جےآئی ٹی رپورٹ کی زبان سے پتا چلتا ہے کہ یہ بدنیتی پر مبنی ہے اور رپورٹ میں نواز شریف پر ایک بھی الزام ثابت نہیں ہوسکا اور نا ہی وزیراعظم اوران کے خاندانی کاروبار کے ساتھ کرپشن کا کوئی کیس جوڑا جا سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد نمبر 10 سپریم کورٹ سے بھی چھپائی جارہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اسے بھی منظر عام پر لایا جائے ی
ہ رپورٹ حتمی فیصلہ نہیں بلکہ سپریم کورٹ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ دے گی۔ وزیرمملکت نے کہا کہ سیاسی مخالفین سازشی ٹولے کے ساتھ مل کر منتخب وزیراعظم کے استعفیٰ کی پیس بنارہے ہیں اور ایسے وزیراعظم پر انگلی اٹھا رہے ہیں جس نے اپنی 3 نسلوں کا حساب دیا، حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ پر گندے کپڑے ٹانگنے والے شخص جس نے خیبرپختون خوا میں نیب کو تالا لگایا، اداروں کو گالیاں دیں اور خود 3 عدالتوں سے مفرور ہے وہ آئین اورقانون کی پاسداری کی بات کرتا ہے ایک اشتہاری پاکستانی عوام کے حقوق کی باتیں کررہا ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح وزیراعظم اس بار بھی عدالتوں سے سرخرو ہوں گے اور سازشی عناصرکو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا