اسلام آباد: ملک کی معاشی صورتحال کچھ ماہ قبل خراب تھی لیکن اب بدترین ہے کیونکہ اہم اکنامک انڈیکیٹرز کے سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال بہت ہی مایوس کن ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد کوئی بہتری ظاہر کرنے کی بجائے ملک کی معاشی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے اور یہ اطلاعات بھی تھیں کہ سابق سیکریٹری خزانہ یونس ڈھاگا نے حکومت کو خبردار کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا تاہم ڈھاگا کو عہدے سے ہٹا دیا گیا اور حکومت نے ایک اور افسر کی بطور سیکریٹری خزانہ تقرری کردی۔
ایف بی آر کو ماہانہ ٹیکس ہدف پورا کرنے میں 60 ارب روپے کی کمی کا سامنا
حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کے حوالے سے اپنے شدید تحفظات کے کی وجہ سے سیکریٹری خزانہ ہونے کے باوجود انہوں نے خود کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات سے دور کر لیا اور مذاکرات کے آخری تین سیشنز میں شرکت نہیں کی۔
اگلے روز حکومت نے اعتراف کیا کہ معیشت کی بہتری کا سفر آسان نہیں کیونکہ ٹیکس کی رسیدوں میں اضافہ نہیں ہو سکا۔ اس نے کہا کہ معاشی محاذ پر چیلنجز ہیں لیکن تنقید میں شفافیت کا عنصر ہونا چاہئے۔ قرضوں کے بوجھ میں 7.6 ہزار ارب اضافے کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو قرار دینا درست نہیں ہوگا۔
جب خراب ہوتی مالی صورتحال کے متعلق پوچھا گیا جس میں گزشتہ مالی سال کے دوران خسارہ جی ڈی پی کے 8.9 فیصد تک پہنچ گیا، حکومت کا کہنا تھا کہ جمع ہونے والے 3.8 ہزار ارب کے ٹیکس ریونیو میں سے قرضہ جات کی ادائیگی میں 2.1 ہزار ارب روپے نکل گئے اور اس کے بعد صوبوں کو اُن کا حصہ ادا کیا گیا، جس کے بعد حکومت کو دفاعی، ترقیاتی اور سرکاری اخراجات کیلئے قرض لینا پڑا۔
مالی سال 2018ء کے آخر تک کلاں اشاریے (میکرو انڈیکیٹرز) اور مالی سال 2019ء کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پی ٹی آئی حکومت کے ایک سال میں معاشی صورتحال تیزی سے بگڑتی رہی۔ ذیل میں وہ اہم اشاریے پیش کیے جا رہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی معیشت میں حالات کیسے بگڑے۔
معیشت سے متعلق اشاریے
2018ء میں جی ڈی پی میں ترقی کی شرح 5.8 فیصد تھی لیکن معیشت کی سست روی کی وجہ سے یہ شرح 2019ء میں 3 فیصد یا اس سے بھی کم ہو سکتی ہے۔
جون 2019ء کے آخر تک مالی خسارہ بڑھ کر 3.4 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے جبکہ 2018ء میں جب نون لیگ کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت یہ 2.2 کھرب روپے تھا۔ دیکھا جائے تو رقم کے لحاظ سے یہ ہماری تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔
فیصدی لحاظ سے دیکھیں تو مالی خسارہ 8.9 فیصد ہو چکا ہے جبکہ 2018ء میں یہ 6.6 فیصد تھا۔ 8.9 فیصد مالی خسارہ گزشتہ 30 سال میں سب سے زیادہ ہے اور ویسے بھی دیکھیں تو پی ٹی آئی نے گزشتہ سال ستمبر میں خود اپنے لیے جو ہدف مقرر کیا تھا وہ 5.1 فیصد تھا۔ اپنے اہداف سے میلوں پیچھے رہ جانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کی معاشی ٹیم کو حالات کی سوجھ بوجھ ہی نہیں۔
زبردست مالی خسارے کا لیے گئے قرضوں پر براہِ راست اثر پڑتا ہے اور ذیل میں قرضوں کے اعداد و شمار سے صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔
دو ماہ میں ٹیکس وصولی 580 ارب روپے رہی: چیئرمین ایف بی آر
جون 2018ء میں مجموعی قرضہ جات 30 ہزار روپے تھے جو اب بڑھ کر 40 ہزار ارب روپے تک جا پہنچے ہیں۔ ایک سال میں قرضوں میں ہونے والا یہ سب سے بڑا اضافہ ہے۔ پاکستان کے 71 سال میں مجموعی قرضہ جات 30 ہزار ارب روپے تھے لیکن پی ٹی آئی حکومت کے صرف ایک سال میں ان میں ایک تہائی تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اس کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی اور صورتحال اخراجات او آمدنی کے حوالے سے بد انتظامی کی عکاسی کرتے ہیں۔
اگر یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو خدشہ ہے کہ پورا معاشی ڈھانچہ دھڑام سے نیچے آ گرے گا کیونکہ ہماری معیشت میں اتنا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔
2018ء میں ٹیکس سے ہونے والی آمدنی ریکارڈ سطح پر تھی اور یہ 3800 ا رب روپے تھی۔ 2019ء میں ٹیکس ریونیو میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ مسلم لیگ نون کی حکومت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پانچ میں سے چار برسوں کے دوران ٹیکس سے ہونے والی آمدنی میں سالانہ 20 فیصد اضافہ ہوا۔ یہ سب انتہائی کم کساد بازاری (انفلیشن) اور روپے کی قدر گرائے بغیر ہی ہوا ، یہ وہ دو پہلو ہیں جو از خود ٹیکس ریونیو میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ آمدنی کا موجودہ ٹارگٹ (5550 ارب روپے) حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ یہ گزشتہ سال کے اصل جمع ہونے والے اعداد و شمار کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ ہے۔ 2018ء میں کساد بازاری(مہنگائی) انتہائی کم ترین سطح یعنی 3.9 فیصد پر تھی۔
موجودہ حکومت میں یہ شرح 10.3 فیصد ہے۔ اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 2018ء کے وسط میں 6.50 فیصد تھا اور پی ٹی آئی حکومت میں یہ 13.25 فیصد ہے۔ نون لیگ کی حکومت ختم ہوتے وقت اسٹاک مارکیٹ 42 ہزار 847 پوائنٹس پر تھا جبکہ اب یہ 30 ہزار کے قریب ہے۔
نون لیگ کی حکومت ختم ہوتے وقت غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 15.913 ارب ڈالرز تھے جن میں سے اسٹیٹ بینک کےذخائر 9.5 ارب ڈالرز تھے جبکہ اب یہ ذخائر 15.630 ارب ڈالرز ہیں جن میں سے اسٹیٹ بینک کے ذخائر صرف 8.271 ارب ڈالرز ہیں۔
یہ سب کچھ دوست ممالک اور آئی ایم ایف سے ایک سال میں حاصل کیے گئے 12 ارب ڈالرز کے باوجود ہے۔ صرف ایک چیز جو موجودہ حکومت کے دور میں گزشتہ ایک سال میں بہتر ہوئی وہ ہے جاری کھاتوں کا خسارہ۔ مالی سال 2018ء میں یہ خسارہ جی ڈی پی کا 6.3 فیصد یعنی 19.897 ارب ڈالرز تھا جو اب کم ہو کر 2019ء میں جی ڈی پی کا 4.8 فیصد یعنی 13.508 ارب ڈالرز ہو چکا ہے۔
یہ بہتر ہے کہ جاری کھاتوں کا خسارہ برآمدات بڑھا کر کم کیا جائے کیونکہ اس سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم حکومت نے یہ کام برآمدات میں اضافہ کیے بغیر کیا ہے اور اس مقصد کیلئے درآمدات کو کم کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ درآمدات میں کمی کی وجہ سے ملکی معیشت نمایاں حد تک سست ہوگئی ہے۔ 2018ء میں جی ڈی پی 313 ارب ڈالرز تھی جبکہ اب 33 ارب ڈا
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے دنیا کہتی ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ختم نہیں کرنے دیں گے۔
سکھر میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ غربت مٹاؤ پروگرام سندھ کے لیے انقلابی پروگرام ہے، پیپلز پارٹی کا غربت مٹاؤ پروگرام پورے سندھ میں پھیل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کہتی ہے کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ختم نہیں کرنے دیں گے، عالمی بینک بھی کہتا ہے بینظیر انکم سپورٹ ختم نہیں ہونے دیں گے۔
چییرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ خواتین کے دلوں سے بینظیر بھٹو کا نام کیسے ختم کرو گے،غربت مٹاؤ پروگرام مزید پھیلے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت 10 لاکھ گھرانوں کو منظم کیا ہے، ایک لاکھ 80 ہزار خواتین کو بلا سود قرضے دیے، 50 ہزار گھر تعمیر ہوئے، 50 ہزار خواتین کو ووکیشنل ٹریننگ دی گئی۔
چیئرمین پی پی پی نے ہم نے نئے بجٹ میں پیسے رکھے ہیں کہ یہ پروگرام گھوٹکی اور دیگر یونین کونسل میں پھیلے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت غریبوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے، ذوالفقارعلی بھٹو نے مزدوروں کو انڈسٹریوں کا مالک بنادیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک بھر میں نوجوانوں کو روزگار دیا اور جب یہاں روزگار نہیں ملتا تھا تو مفت پاسپورٹ دلوا کر باہر روزگار کا بندوبست کیا تھا۔
پیپلزپارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ آج ملک بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کام کررہی ہے، 2009 سے غربت مٹاؤ پروگرام چل رہا ہے اور آگے بھی چلے گا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگلی حکومت پیپلزپارٹی کی ہوگی،انہوں نے کہا کہ ہم قبائلی علاقوں میں اور اس ملک کے کونے کونے میں خواتین کو ان کے پیروں پر کھڑا کریں گے۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدل کر ’ احساس ‘ رکھا جارہا ہے، اس پروگرام کو کسی صورت ختم نہیں ہونے دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مل کر کام کریں گے تو صفائی کےمسائل نہیں ہوں گے، مل کر کام کریں گے تو صحت کے اور پینے کے پانی کے مسائل نہیں ہوں گے اورسندھ کے بچوں کے مستقبل کا تحفظ ہوسکے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ جب ہم مل کر کام کریں گے تو سندھ میں ایک اور انقلاب آئے گا، سندھ کی معیشت کو، حکومت کو بہتر کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں آپ کا ساتھ چاہتا ہوں جب تک عوام میرے ساتھ ہے کوئی مشکلات نہیں ہوں گی کوئی میرے سامنے نہیں کھڑا ہوسکے گا۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ ہم اس نظام کا مقابلہ کریں گے، ان کا مقابلہ کریں گے جو سمجھتے ہیں کہ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرکے وہ غریب عوام کی نوکریاں چھین کر تبدیلی لاسکتے ہیں۔
اسلام آباد : آل انجمن تاجران پاکستان نے 13 جولائی کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا۔
صدر انجمن تا جران کاشف چوہدری کہتے ہیں کہ اگر مطالبات نہیں مانے گئے تو ملک کی ہر صنعت کو بند کر کے اس کی چابیاں ڈی چوک حکومت کے حوالے کریںگے کہ حکومت یہ نظام چلائے۔
آل پاکستان انجمن تا جر تقریب کا انعقاد اسلام آباد کے نواحی علاقہ میں کیا جائیگا، تقریب سے وزیراعظم خطاب بھی کریں گے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیرخان ترین نے کہا ہے کہ نئے وفاقی بجٹ میں انہیں یا ملک کی کسی بھی شوگر ملز کو حکومتی ٹیکس میں اضافے سے فائدہ نہیں ہوگا۔
پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل نے کہا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ میرے یا شوگر ملز کو نہیں ملے گا، یہ تمام ٹیکس حکومت کو جائےگا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’لوگ غلط فہمی پھیلا رہے ہیں، چینی کی قیمتوں میں اضافے کا اضافی ریونیو حکومت کو جائے گا، کسی نجی شعبے کو نہیں‘۔
خیال رہے کہ حکومت نے 20-2019 میں شوگر پر عائد ٹیکس میں 17 فیصد اضافہ کیا جس کے نتیجے میں فی کلو قیمت تقریباً ساڑھے تین روپے بڑھ جائے گی۔
دوران پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ’میرے پاس حکومت میں کوئی عہدہ نہیں ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے انہیں زراعت ایمرجنسی پروگرام کی ذمہ داری دی ہے اور اس ضمن میں کابینہ کو بھی بریفنگ دی۔
واضح رہے کہ 15 دسمبر کو سپریم کورٹ کے فیصلے میں پی ٹی آئی کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 کے تحت نا اہل قرار دے دیا تھا ، ان پر زرعی آمدن، آف شور کمپنیوں، برطانیہ میں جائیداد اور اسٹاک ایکسچینج میں اِن سائڈ ٹریڈنگ سے متعلق الزامات تھے۔
جہانگیر ترین کی پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس توہینِ عدالت
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے جہانگیر ترین کی پریس کانفرنس پر کہا کہ وہ مالی اور باورچیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کا سپریم کورٹ میں اعتراف کرنے والے سرکاری وسائل استعمال کررہے ہیں۔
انہوں نے جہانگیر ترین کی پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس توہینِ عدالت قرار دے دی۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم عمران صاحب جہانگیر ترین کو کسی بھی چیز سے منع نہیں کر سکتے کیونکہ ’اے ٹی ایم کے ناراض‘ ہونے کا ڈر ہوتا ہے، بنی گالا کے محل کا ’خرچہ بند‘ ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سپریم کورٹ سے منی لانڈرنگ پر نااہل شخص آپ کی حکومت کی ترجمانی کر رہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ نااہل قرار پانے والا مشہورزمانہ منی لانڈرر حکومتی پالیسی بیان کررہے ہیں ۔ یہ ہے نیا پاکستان؟