جمعرات, 10 اکتوبر 2024
Reporter SS

Reporter SS

 

ایمز ٹی وی (جکارتہ) جکارتہ شہر کا دنیا کے ان خطرناک شہروں میں شمار ہونے لگا ہے جو تیزی سے ڈوب رہے ہیں ماہرین کے مطابق شہر کا چالیس فیصد حصہ سطح سمندر سے نیچے جاچکا ہے اور حکومت نے اس شہر کو بچانے کی کوششیں شروع کردی ہیں

انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کو اس وقت ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے حکومت نے اسے بچانے کے لئے ساحل کے قریب ایک بڑی دیوار کی تعمیر شروع کردی ہے جس کا مقصد بندرگاہ سے پانی کا اخراج اور ساحلی علاقے کو سمندر کے مد و جزر سے بچانا ہے۔


ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ جکارتہ ہرسال سات اعشاریہ چھ سینٹی میٹر دھنس رہا ہے جس کا بڑا سبب سمندر کی بلند ہوتی سطح ہے اس کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کا بڑھنا بھی ہے زیر زمین پانی بڑھنے سے کنووں کی حالت خراب ہوگئی اور جکارتہ کے شہری خراب پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔


جکارتہ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے شروع کیے جانے والے مربوط منصوبے کو انڈونیشیا کے مقدس تصوراتي پرندے گاروڈا کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اس منصوبے کے تحت سمندر کے کنارے 24 کلومیٹر لمبی دیوار اور جکارتہ کے شمالی ساحلی علاقے کے گرد 17 مصنوعی جزیرے تعمیر کیے جائیں گے۔


جکارتہ کے سمندری أمور اور ماہی گیری سے متعلق وزارت کے 2015 کے ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا تھا کہ دیوار کی تعمیر ماحول پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے، تاریخی جزائر غرق اور زیر آب چٹانیں تباہ ہو سکتی ہیں

 

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)طیبہ تشدد کیس کی سماعت کیلئے متاثرہ بچی طیبہ کو سپریم کورٹ پہنچا دیا گیا ہے۔ تفصیلا ت کے مطابق سپریم کورٹ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے طیبہ کو آج سپریم کورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

جبکہ جج کی اہلیہ بھی سپریم کورٹ پہنچ گئی ہے۔ جج کی اہلیہ نے طیبہ سے متعلق بات چیت کرنے سے گریزکیا ہے۔ طیبہ کی دعوے دار 4 خواتین بھی عدالت پہنچ گئیں ہیں۔میڈیکل بورڈ نے طیبہ پر تشدد ہونے کی تصدیق کی ہے۔

 

 

ایمز ٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) آپ نے اپنی زندگی میں ایسے کئی افراد دیکھے ہوں گے جو اپنے کام کے لیے بے حد جنونی ہوتے ہیں۔ یہ اپنے کاموں کو مکمل کرنے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔

حال ہی میں ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے افراد اپنی صحت کو نقصان تو پہنچا ہی رہے ہوتے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ وہ اپنے دفاتر کو بھی نقصان پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔

امریکا میں کیے جانے والے ایک تحقیقی سروے میں ایسے ملازمین کو مرکز بنایا گیا جو کام کے لیے خطرناک حد تک جنونی تھے۔ یہی نہیں کام کے حوالے سے ان کا رویہ بھی غیر موزوں تھا۔

ایسے افراد اپنے آپ کو نہایت کامل سمجھتے تھے اور انہیں لگتا تھا کہ ان کی غیر موجودگی میں کام نہیں ہوسکے گا، یا ٹھیک سے نہیں ہوسکے گا۔ یہ لوگ اپنی چھٹیاں لینے سے بھی پرہیز کرتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ ان کی چھٹیوں سے دفتر کو نقصان ہوگا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے ملازمین دراصل دفتر کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ ایسے افراد دفاتر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ لڑائی جھگڑوں میں ملوث پائے گئے جو عموماً کام کے حوالے سے ہوتے تھے۔ یہ افراد دفتر کا ماحول خراب کرنے کا سبب بنتے تھے۔

چونکہ یہ ملازمین دفتر میں دیر سے بیٹھتے ہیں، زیادہ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چھٹیاں نہیں لیتے تو اس سے ان کی اپنی صحت کو بھی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں جس کا نتیجہ بیماری کے باعث لمبی چھٹیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

ماہرین نے تجویز کیا کہ دفتر کے کاموں اور فکروں کو دفتر کے اوقات تک محدود رکھنا چاہیئے، اس کے بعد کا وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ اور ذاتی دلچسپی کی سرگرمیوں میں گزارنا چاہیئے۔

 

 


ایمز ٹی وی(صحت) پاکستانی ڈاکٹرز نےطب کی دنیا میں نیا کارنامہ کردکھایا ۔ایک خاتون کی تیزاب سے جھلسی خوراک کی نالی تبدیل کر دی ۔ خاتون نےڈیڑھ سال بعد من پسند کھانوں سے لطف اندوز ہونا شروع کردیا۔

گوجرانوالہ کی23سالہ صبا ء ذوالفقار ،دو بچوں کی ماں ہیں۔ان کا کہناہے کہ ڈیڑھ سال قبل انہوں نے دوا کھانے کیلئے غلطی سے پانی سمجھ کر تیزاب پی لیاتھا جس کے ایک ہی گھونٹ نے خوراک کی نالی کو بری طرح متاثر کیا ۔

میواسپتال لاہور میں ڈاکٹرز نے کامیاب آپریشن کے بعد اس کی خوارک کی نالی تبدیل کر دی۔

صباء کا کہنا ہے کہ اب وہ سب کچھ کھا پی رہی ہے۔

میواسپتال کے پروفیسر خالد مسعود گوندل کا کہنا ہے کہ نوجوانوں میں خود کشی اور غلطی سے تیزاب پینے کے واقعات بڑ ھ رہے ہیں، صباء کا آپریشن بالکل مفت کیا گیا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات سے بچنے کیلئےگھروں میں تیزاب والی بوتلیں بچوں کی پہنچ سے دور اور محفوظ مقام پر رکھنی چاہیے۔

پاکستانی ڈاکٹرز میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں،وہکہتے ہیں کہ اگر سرکاری اسپتالوں میں تمام سہولتیں فراہم کر دی جائیں تو وہ بڑے بڑے آپریشن کامیابی سے کر سکتے ہیں۔

 

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت جاری ہے
تفصیلات کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کی چھٹی مسلسل سماعت کے دوران گزشتہ پانچ روز سے جاری تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سماعت میں وقفہ کر دیا ہے۔ اس وقت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے دلائل جاری ہیں ۔
سماعت شروع ہوتے ہی تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل کا سلسلہ گزشتہ روز سے جوڑتے ہوئے موقف اپنایا کہ نوازشریف اور بچوں کے بیانات میں تضاد ہے ۔ بیئرر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا بلکہ اس کا حامل ہی آف شور کمپنی کا مالک ہوتا ہے اور قانون کے مطابق بیئررسرٹیفکیٹ سے متعلق بتانا ضروری ہے جس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ غالباُُ یہ قانون 2002ءمیں آیا تھا۔

قانون دان نعیم بخاری نے کہا کہ فلیٹس ٹرانسفر تک بیئرر سرٹیفکیٹس کا ریکارڈ دینا ہو گا ۔ شریف فیملی کو سرٹیفکیٹ قطری خاندان کے پاس ہونے کا ثبوت دینا ہو گا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا کمپنی رجسٹریشن کے قانون کا اطلاق پہلے سے موجود کمپنیوں پر ہوتا ہے تو نعیم بخاری نے جواب دیا کہ رجسٹریشن کے نئے قانون کا اطلاق سب پر ہوتا ہے ۔شریف خاندان کے بقول2006ءسے قبل بیئرر سرٹیفکیٹ قطری خاندان کے پاس تھے تو شریف خاندان کو ثابت کرنا ہو گا کہ ان کا ہر کام قانون کے مطابق ہوا ۔ مریم نواز کے پاس آف شور کمپنیوں کیلئے پیسہ نہیں تھا اوربلیک لاءڈکشنری کے مطابق زیر کفالت وہ ہوتا ہے جسکے اخراجات دوسرا برداشت کرے ۔ آف شور کمپنیوں کے لئے مریم کو رقم نوازشریف نے دی وہ اپنے والد کے زیر کفالت ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نوازشریف نے مریم کو کروڑوں روپے بطور تحفہ دیے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ بخاری صاحب آپکی تعریف مان لیں تو کیا مریم حسین نواز کے زیر کفالت ہیں ؟
جسٹس اعجاز افضل نے پوچھا کہ کیا والد کے ساتھ رہنے والا زیر کفالت ہوتا ہے ۔نعیم بخاری نے موقف اپنایا کہ کیپٹن صفدر کی ریکارڈ کے مطابق کوئی آمدن نہیں تھی اور ہر کوئی چاہتا ہے کہ شادی کے بعداسکی بیٹی کی کفالت شوہر کرے ۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے ؟ نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت سے وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ بخاری صاحب آپکے بقول شریف خاندان نے فلیٹس 1993ءاور 1996ءکے درمیان خریدے ۔ شریف فیملی کے بقول انہیں فلیٹس 2006ءمیں منتقل ہوئے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں کوئی نیا نقطہ بیان کریں جس کے بعد تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت کو بتایا کہ انکی کمر میں درد ہے لہذٰا انجیکشن لگوانے کیلئے 2گھنٹے کا وقفہ دیا جائے جسے عدالت نے منظور کر لیا اور شیخ رشید کو دلائل کا موقع فراہم کیا گیا جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ نعیم بخاری کے دلائل کی مکمل تائید کرتا ہوں ۔ ایک طرف مریم نواز کہتی ہیں کہ ان کی آمدن نہیں اور دوسری طرف مریم نواز امیر ترین خاتون ہیں ۔” آپ نے انصاف فراہم کرنے کا حلف لیا ہے اور عوام کی نظریں عدالت پر ہیں “۔

انہوں نے موقف اپنایا کہ یہ مقدمہ 20کرو ڑ عوام کا ہے ۔ عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کرنے کیلئے آئے ہیں ۔اگر کوئی کسی کے زیر سایہ ہے تو زیر کفالت کہلائے گا ۔وکالت کا تجربہ نہیں غلطی ہوئی تو عدالت سے معافی چاہوں گا ۔ قطری خط رضہ بٹ کا ناول ہے ۔ پاناما کیس ایک خاندان بمقابلہ 20کرو ڑ عوام کا کیس ہے اور وزیر اعظم نوازشریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں ۔
شیخ رشید نے موقف اپنایا کہ قطری شہزادہ شریف خاندا ن کیلئے ریسکیو 1122ہے ۔ اسحاق ڈار نے اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا ۔ و ہ دو افراد ان کی اہلیہ اور مریم نوا زہیں ۔ شیخ رشید کے دلچسپ دلائل پر عدالت میں قہقہے لگ گئے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی ۔

شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ قطری خط بیان حلفی کے بغیر ہے ، قانون کے مطابق زبانی ثبوت براہ راست ہونا چاہئیے اور سنی سنائی بات کوئی ثبوت نہیں ہوتا ۔”قطری خط سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے “۔ قطری خط کی حیثیت ٹیشو پیپر سے زیادہ نہیں ۔ کیس کے پیچھے اصل چہرہ سیف الرحمان کا ہے ۔1980ءمیں ایک درہم کی قیمت 2روپے 60 پیسے تھی اور قطری شہزادہ مین آف دی میچ ہے ۔

 

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ نعیم بخاری پر تنقید نہیں کی میڈیا نے میرے نام سے بیان چلایاتھا۔ پانامہ کیس شیخ رشید،عمران خان یا سراج الحق کا نہیں 20 کروڑ عوام کا ہے۔سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت سے قبل شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انصاف 20 کروڑ عوام کا حق ہے۔


نعیم بخاری پی ٹی آئی کا وکیل ہے۔ نعیم بخاری سے عمران خان مطمئن ہیں تو میں بھی مطمئن ہوں۔انہوں نے کہا کہآرٹیکل 62 اور 63 تمام قوانین کی ماں ہے، 62 ایف میں کسی مزیدثبوت کی ضرورت نہیں۔ریاستی ادارے ریاست کے غلام ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ سے کرپشن کا ثبوت نکلے گا

نعیم بخاری کو قانون کا کچھ پتہ ہی نہیں 

شیخ رشید کا مزید کہنا تھا کہ عوامی مسلم لیگ اپنا کیس خود لڑ رہی ہے۔دھرنا دیں گے اس بار دھرنے کا فیصلہ عوام اور شیخ رشید کریں گے۔نعیم بخاری پی ٹی آئی کے وکیل ہیں نہ اس پر بات کی ہے نہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم،انکے بچوں اور ہارون پاشا کا جواب دیکھ لیں سے کا جواب مختلف ہے۔گذشتہ روز پانامہ کیس کی سماعت کے بعد شیخ رشید نے نعیم بخاری کے بارے بیان میں کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے وکیل اسی طرح کیس لڑتے رہے تو ہم کیس ہار جائیں گے۔

 

 

ایمز ٹی وی(صحت) نمک ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر کسی کھانے کو ذائقے دار نہیں بنایا جاسکتا ہے اور بیشتر افراد کھانوں میں اس کی زیادہ مقدار ہی چھڑکنا پسند کرتے ہیں۔

مگر سوال یہ ہے کہ ایک انسان کو روزانہ کتنا نمک استعمال کرنا چاہیئے؟

امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کے مطابق ایک انسان کو روزانہ 2300 سے 3400 ملی گرام نمک استعمال کرنا چاہیئے یعنی آدھا چائے کا چمچ۔

تو نمک ہمارے جسم کے ساتھ کیا کرتا ہے؟ درحقیقت نمک کا معتدل استعمال فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ ہمیں سوڈیم اور کلورائیڈ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ جسمانی افعال مناسب طریقے سے کام کرسکیں۔

مختلف تحقیقی رپورٹس کے مطابق غذا میں بہت زیادہ نمک امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کا باعث بنتا ہے، تاہم یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہمارا جسم نمک کو کیسے استعمال کرتا ہے۔

ہمارا جسم سوڈیم کو دوران خون اور بلڈ پریشر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

سوڈیم ایک مالیکیول کے طور پر کام کرکے بھی مسلز اور اعصاب کو کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔

نمک میں شامل کلورائیڈ جسم میں پانی یا سیال کو ریگولیٹ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ نمک کا بہت زیادہ استعمال کرنے سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق بہت زیادہ نمک کا استعمال کرنے سے پیشاب زیادہ آتا ہے، جس کے نتیجے میں جسم میں پانی کی کمی ہوتی ہے اور پیاس زیادہ لگنے لگتی ہے۔

جب آپ زیادہ پیشاب کرتے ہیں تو جسم سے کیلشیئم کا اخراج بھی بڑھ جاتا ہے جو ہڈیوں کے امراض کا باعث بنتا ہے۔

بہت زیادہ نمک گردوں کو زیادہ پانی جسم میں رکھنے پر مجبور کرتا ہے جو بتدریج گردے فیل ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

گردوں کی جانب سے پانی کی مقدار بڑھانے کے نتیجے میں ہاتھوں، بازوﺅں اور پیروں میں سوجن یا ورم کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

جو لوگ بہت زیادہ نمک کھاتے ہیں ان میں معدے کے السر کا رجحان زیادہ دیکھنے میں آیا ہے تاہم ماہرین طب اس حوالے سے پریقین نہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

جب آپ کی رگوں سے پانی زیادہ گزرتا ہے تو وقت گزرنے کے ساتھ وہ اکڑنے لگتی ہیں اور ہائی بلڈ پریشر کا مرض لاحق ہوجاتا ہے۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ہائی بلڈ پریشر کے باعث امراض قلب اور فالج کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے جو دنیا بھر میں اموات کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں۔

 

 

ایمز ٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) کیا آپ ایسا موبائل فون استعمال کریں گے جس کا سائز ایک کریڈٹ کارڈ جتنا ہو؟

اگر ہاں تو لائٹ ہاﺅس نامی یہ ڈیوائس آپ کو ضرور پسند آئے گی مگر ایک مسئلہ ہے کہ یہ اینٹی اسمارٹ فون ڈیوائس ہے۔

جی ہاں اس فون سے صرف کالز کرنے اور موصول کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔

یہاں تک کہ ایس ایم ایس بھی نہیں، انٹرنیٹ پر کنکٹ ہونے کا تو سوال ہی نہیں پیدا نہیں ہوتا، جبکہ یہ کیمرے سے بھی محروم ہے۔

امریکی کمپنی نیو لیب نے اسے تیار کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کو ڈیزائن کرنے کا مقصد ہر ممکن حد تک موبائل فون کا استعمال کم کرنا ہے۔

کمپنی کے بقول اسے اسمارٹ فون کی لت سے نجات دلانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔

اس کمپنی کا مشن ہی انسانی آواز کو ٹیکنالوجی کی موجودہ دنیا سے آزاد کرانا اور لائٹ فون کے ذریعے لوگوں کو اسمارٹ فونز سے دور کرنا ہے۔

ویسے یہ فون اپنے مہنگے اسمارٹ فونز کو گھر میں رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان پر وہی نمبر ایکٹو ہوتا ہے جوآپ کے نام ہوتا ہے جس کے لیے لائٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا ہے۔

چونکہ اس میں کوئی ڈیجیٹل اسکرین نہیں، اسی لیے اس کا حجم بھی ایک کریڈٹ کارٹ جتنا ہی ہے مگر یہ بہت زیادہ پتلا بھی ہے۔

فون میں ایل ای ڈی انٹرفیس ہے اور یہ مکمل طور پر ٹچ اسکرین ہے مگر ٹاپ اور بائیں جانب بٹن دیئے گئے ہیں۔

لائٹ فون کی قیمت ڈیڑھ سو ڈالرز رکھی گئی ہے

 

 

ایمز ٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) اگر تو آپ واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں تو اچھی خبر یہ ہے کہ بہت جلد آپ اس میں دس کی جگہ بیک وقت 30 تصاویر کو شیئر کرسکیں گے۔

جی ہاں واٹس ایپ کے اینڈرائیڈ بیٹا ورژن میں یہ اضافہ موجود ہے جس کے ذریعے ایک وقت میں لوگ زیادہ سے زیادہ 30 تصاویر شیئر کرسکیں گے۔

یہ اضافہ ان لوگوں کو بہت پسند آئے گا جو اپنے دوستوں اور پیاروں سے اکثر تصاویر شیئر کرتے ہیں مگر کئی بار انہیں کسی تقریب کی فوٹوز شیئر کرنے میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔

اس فیچر کا مطالبہ صارفین کی جانب سے کافی عرصے سے کیا جارہا تھا۔

اسی طرح واٹس ایپ میں اب جی آئی ایف تصاویر سرچ کرنے کا فیچر بھی بیٹا ورژن میں متعارف کرا دیا گیا ہے۔

اس وقت واٹس ایپ کے اینڈرائیڈ صارفین جی آئی ایف تصاویر بھیج اور موصول کرسکتے ہیں مگر اس صورت میں جب وہ ان کی ڈیوائس میں اسٹور ہو۔

مگر اب واٹس ایپ میں جی آئی ایف سرچ کو براہ راست ایپ سے منسلک کردیا جائے گا جس پر کلک کرتے ہی آپ کے سامنے مختلف اینیمیٹڈ تصاویر کا ڈھیر لگ جائے گا یا اپنی مرضی سے سرچ کرسکیں گے۔

ابھی یہ دونوں فیچرز واٹس ایپ کے بیٹا ورژن میں ہے اور جلد عام صارفین کو بھی دستیاب ہوں گے

 

 

ایمز ٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) آنکھ سے آنکھ ملانا ایک عجیب انسانی جنون ہے، اگر آپ کم سے کم آنکھ ملانے والے شخص کو آپ کو یا تو شرمیلا یا کم اعتماد سمجھا جاتا ہے۔

زیادہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے تو آپ نفسیاتی سمجھے جاتے لگتے ہیں اور اگر اس انتہا کے درمیان رہا جائے تو یا تو کام بن سکتا ہے یا بگڑ سکتا ہے۔

لیکن ہم ایسا کرنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں اور ہمیں ایسا کیوں لگا ہے کہ دوسری طرف دیکھ کر بات کی جانی چاہیے؟

اس بات کا جواب جاننے کے لیے ’کیوٹو یونیورسٹی‘ کے محققین کی ٹیم نے تحقیق کا آغاز کیا اور ’کوگنیشن‘ نامی جرنل میں شائع ہونے والے اپنے پیپر میں اس کی ممکنہ وضاحت پیش کی۔

اس مطالعے کے لیے رضاکاروں کو الفاظ سے متعلق ایک سادہ سی گیم کھیلنے کا کہا گیا۔

ماہرین نے مشاہدہ کیا کہ جب رضاکاروں نے آنکھوں میں دیکھ کر مشکل الفاظ کا جواب دیا تو انہیں اس کے لیے زیادہ وقت لگا اور جب انہوں نے آنکھوں سے رابطہ منقطع کیا تو وہ کم وقت میں جواب دے پائے۔

مطالعے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی جانچ کے بعد ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا کہ جب آپ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کسی لفظ کا جواب یاد کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو دماغ آپ کو مجبور کرتا ہے کہ آپ آنکھوں سے رابطہ منقطع کردیں، تاکہ وہ صرف لفظ کے جواب پر توجہ دے سکے اور اس طرح آپ جلد کسی لفظ کا جواب دے سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق جب آپ کسی کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کر رہے ہوں تو اس سے آپ کو دوسرے شخص سے جذباتی تعلق ہموار کرنے میں مدد ملتی ہے، لیکن کسی دوسری طرف دیکھنے سے اصل میں بہتر گفتگو کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔