پیر, 07 اکتوبر 2024
Reporter SS

Reporter SS

کراچی : داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے طلبا کو اپنی پریزنٹیشن کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور لاک ڈاؤن کی مدت کو مثبت انداز میں استعمال کرنے کا موقع فراہم کرنے کیلئے پہلے آن لائن لیکچر مقابلوں کا انعقاد کیا
 
کیمیکل انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ سے عبدالمعیز نے پہلی، پٹرولیم اینڈ گیس انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ سے عطیہ طور رحمن نے دوسری اور الیکٹرونکس ڈپارٹمنٹ سے اسداللہ شیخ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
کراچی : جامعہ کراچی کے گرلزہاسٹل ہونےوالے ہراساں کئےجانےوالے واقعہ پر وائس چانسلر جامعہ کراچی ڈاکٹر خالد عراقی کا کہناہے کہ گرلز ہاسٹل میں کسی مرد کے داخلے سے متعلق تحقیقات کی جارہی ہے اس وقت جامعہ کراچی کے گرلز ہاسٹل میں کوئی طالبہ بھی موجود نہیں ہے۔
 
انہوں نے بتایا کہ جامعہ کراچی میں سیکیورٹی کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے پولیس اور رینجرز مکمل تعاون کررہی ہے ۔ ڈاکٹر خالد عراقی نے بتایا کہ گرلز ہاسٹل میں خاتون وارڈنز تعینات ہوتی ہیں، کورونا وبا کی وجہ سے گرلز ہاسٹل کا عملہ کم کیا ہوا ہے۔
 
یاد رہے کہ 23 جون کی رات کو جامعہ کراچی کے گرلز ہاسٹل میں نامعلوم شخص گھس آیا تھا، جس کا مقدمہ خاتون نے 25 جون کو نامعلوم افراد کے خلاف درج کرایا۔
ڈاکٹر خالد عراقی نے بتایا کہ ایف آئی آر درج کرانے والی خاتون جامعہ کی طالبہ نہیں ہے، جامعہ کے ہاسٹل میں اپنی دوستوں کے ساتھ مقیم تھیں۔
مانیٹرنگ ڈیسک: فیس بک کی جانب سے نفرت انگیز پوسٹس پر ناکافی اقدامات کی وجہ سے بڑی کمپنیوں کی جانب سے اشتہارات کے بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
 
امریکا میں شہری حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیموں اور گروپوں نے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے پولیس حراست میں قتل کے بعد ’’اسٹاپ ہیٹ فور پرافٹ‘‘ (فائدے کےلیے نفرت پھیلانا بند کرو!) کے عنوان سے مہم کا آغاز کیا تھا جس میں فیس بک کو بطور خاص ہدف بنایا گیا تھا۔
 
مہم چلانے والی تنظیموں میں شامل ’’کلر آف چینج‘‘ اور ’’نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل‘‘ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ فیس بک ’’نسلی منافرت، تشدد پر اکسانے والے اور واضح طور پر جعلی مواد کو اپنے پلیٹ فورم پر رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔‘
 
اس مہم میں فیس بک پر اشتہارات دینے والی کمپنیوں سے رجوع کیا گیا تھا کہ منافرت سے متعلق فیس بک کی پالیسیوں میں اصلاحات کے لیے اس پلیٹ فورم کا بائیکاٹ کریں۔ اس مہم کے نتیجے میں 90 سے زائد کمپنیوں نے فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا
 
مانیٹرنگ ڈیسک: فیس بک کی جانب سے نفرت انگیز پوسٹس پر ناکافی اقدامات کی وجہ سے بڑی کمپنیوں کی جانب سے اشتہارات کے بائیکاٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
 
امریکا میں شہری حقوق کےلیے کام کرنے والی تنظیموں اور گروپوں نے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے پولیس حراست میں قتل کے بعد ’’اسٹاپ ہیٹ فور پرافٹ‘‘ (فائدے کےلیے نفرت پھیلانا بند کرو!) کے عنوان سے مہم کا آغاز کیا تھا جس میں فیس بک کو بطور خاص ہدف بنایا گیا تھا۔
 
مہم چلانے والی تنظیموں میں شامل ’’کلر آف چینج‘‘ اور ’’نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل‘‘ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ فیس بک ’’نسلی منافرت، تشدد پر اکسانے والے اور واضح طور پر جعلی مواد کو اپنے پلیٹ فورم پر رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔‘
 
اس مہم میں فیس بک پر اشتہارات دینے والی کمپنیوں سے رجوع کیا گیا تھا کہ منافرت سے متعلق فیس بک کی پالیسیوں میں اصلاحات کے لیے اس پلیٹ فورم کا بائیکاٹ کریں۔ اس مہم کے نتیجے میں 90 سے زائد کمپنیوں نے فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا۔
سلیکان ویلی: امریکی حکومت کی جانب سے تنقید اور یونی لیور سمیت سو سے زائد کمپنیوں کی جانب سے اشتہارات کی بندش کے بعد فیس بک نے نفرت انگیز اشتہارات پر پابندی لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق نئی پالیسی میں کسی خاص رنگ و نسل، قومیت، مذہب، ذات، جنسی رجحان، صنف، شناخت اور تارکینِ وطن (امیگریشن اسٹیٹس) سے تعلق رکھنے والے افراد کو دوسروں کی صحت اور جان و مال کےلیے خطرہ بنا کر پیش کرنے والے اشتہارات پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اسی طرح تارکین وطن یا پناہ گزینوں کے خلاف نسلی منافرت پر مبنی اشتہارات اور اشتہاری مواد پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم ان نئی پابندیوں کا اطلاق غیر اشتہاری پوسٹوں پر نہیں ہوگا۔
اس سے قبل گزشتہ ایک ہفتے کے دوران فیس بک کی نفرت انگیز مواد پر قابو پانے کےحوالے سے کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کئی یورپی اور امریکی کمپنیوں نے ویب سائٹ کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ گزشتہ روز امریکا کی بڑی ٹیلیکوم آپریٹر کمپنی ’’ویریزون‘‘ اور اشیائے صرف بنانے والی بین الاقوامی کمپنی ’’یونی لیور‘‘ نے بھی رواں سال فیس بک کو اشتہارات نہ دینے کا اعلان کیا تھا۔
اس حوالےسےفیس بک کےبانی مارک زکربرگ جمعے کو لائیو اسٹریم کے ذریعے نفرت انگیز مواد کے خلاف اپنی کمپنی کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یورپی کمیشن کی رواں ماہ جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق فیس بک نے گزشتہ برس 86 فیصد نفرت انگیز مواد حذف کیا
زکربرگ کا کہنا تھا کہ فیس بُک اور اس کے ماتحت دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ’’اپنے ملک میں بدلتے حقائق‘‘ کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں مزید سخت کریں گے۔ رنگ و نسل اور تارکین وطن ہونے (امیگریشن اسٹیٹس) کی بنیاد پر امتیاز کرنے والا اشتہاری مواد فیس بک سے ہٹا دیا جائے گا۔
زکربرگ نے اعتراف کیا کہ اس پابندی کا اطلاق صرف اشتہارات پر کیا جاسکے گا، تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ صارفین کی جانب سے ’’ممکنہ طور پر‘‘ نفرت کا پرچار کرنے والی سوشل میڈیا پوسٹس پر اس پالیسی کا اطلاق ممکن نہیں ہوسکے گا لیکن ایسے قابل اعتراض مواد کی نشاندہی ’’پرابلمیٹک‘‘ (باعثِ پریشانی) کے لیبل سے ضرور کردی جائے گی۔
 

ٹوکیو: جاپان کے سرکاری تحقیقی ادارے ’’رائیکن لیبارٹری‘‘ نے نجی ٹیکنالوجی کمپنی ’’فیوجیتسو‘‘ کے تعاون و اشتراک سے دنیا کا طاقتور ترین سپر کمپیوٹر ’’فُوگاکُو‘‘ (Fugaku) تیار کرلیا ہے جو صرف ایک سیکنڈ میں 415 کروڑ ارب حسابات لگا سکتا ہے۔

اس سے پہلے  ’’سمّٹ‘‘ کو دنیا کا سب سے تیز رفتار سپر کمپیوٹر کا اعزاز حاصل تھا جو امریکا کی اوک رِج نیشنل لیبارٹری نے تیار کیا تھا اور 148 پی-ٹا فلوپس کی رفتار سے حساب لگاتا ہے۔ اس طرح رفتار کے میدان میں ’’فُوگاکُو‘‘ کی رفتار، سمّٹ کے مقابلے میں 2.8 گنا زیادہ ہے۔

لیکن فُوگاکُو کی برتری صرف یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ دنیا کا سب سے پہلا تیز رفتار ترین سپر کمپیوٹر بھی ہے جس میں ’’اے آر ایم آرکٹیکچر‘‘ کے حامل 158,976 سی پی یو ایک ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ قدرے تکنیکی الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ فُوگاکُو کی رفتار ’’415 پی-ٹا فلوپس‘‘ (415 peta flops) ہے۔

واضح رہے کہ اے آر ایم آرکٹیکچر پر مبنی مائیکرو پروسیسرز کا استعمال آج کل اسمارٹ فون، اسمارٹ واچ اور ٹیبلٹ پی سی وغیرہ جیسے جدید دستی برقی آلات میں بکثرت کیا جارہا ہے کیونکہ یہ مختصر ہونے کے علاوہ خاصی کم توانائی بھی صرف کرتے ہیں۔

ماضی میں بھی اے آر ایم آرکٹیکچر والے سی پی یوز کی مدد سے سپر کمپیوٹر تیار کیے جاچکے ہیں لیکن وہ زیادہ طاقتور نہیں تھے۔ اس لحاظ سے یہ پہلا موقع ہے جب ’’اسمارٹ فون پروسیسر‘‘ کی ٹیکنالوجی سے دنیا کا سب سے تیز رفتار سپر کمپیوٹر تیار کیا گیا ہے۔ 

دیگر خبروں سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ فُوگاکُو کا اعلان کرنے سے پہلے ہی یہ سپر کمپیوٹر کورونا وائرس کی ویکسین تلاش کرنے میں استعمال کیا جانے لگا تھا۔ 

لاہور: ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز کی تشکیل نو کر دی گئی، بورڈ آف گورنرز کی منظوری گورنر پنجاب نے  دی۔ 
 
گورنر چودھری محمدسروربورڈ آف گورنرزکےصدر ہوں گے، بورڈ 22ممبران پر مشتمل ہوگا جن میں16نان آفیشل ممبران ہوں گے۔
 
آفیشل ممبران میں چیف سیکرٹری،جنرل آفیسر کمانڈنگ 10ڈویژن،سیکرٹری ہائر ایجوکیشن،سیکرٹری خزانہ اور پرنسپل ایچی سن کالج بھی شامل ہوں گے ۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے واضح کردیا کہ 15جولائی سے تعلیمی ادارے کھولنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
 
شفقت محمود نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ 2 جولائی کو بین الصوبائی اجلاس ہوگا۔
 
 
سوشل میڈیا پر تعلیمی ادارے 15 جولائی سے کھولنے کی افواہیں چل رہی ہیں تاہم فیصلہ صوبوں کی مشاورت سے کیا جائے گا۔
 

لاہور: محکمہ ا سکول ایجوکیشن پنجاب نے سرکاری   اسکولوں میں بچوں کی داخلہ مہم شروع کرنے کی اجازت دیدی ۔ تفصیلات کے مطابق مہم کے دوران پرائمری،ایلیمنٹری اور ہائی  اسکولوں میں آئندہ سیشن کیلئے بچوں کے داخل کیے جائیں گے ۔

 مراسلے کے مطابق  داخلوں کے دوران کورونا ایس او پیز کامکمل خیال رکھا جائے گا۔بچوں میں کتابوں کی تقسیم اور داخلوں کاعمل 15 جولائی تک مکمل کیا جائے ۔نئے داخلوں کیلئے کتابوں کی ڈیمانڈ 16 جولائی تک محکمہ کو بھجوا دی جائے ۔

 اس حوالے سے پنجاب ٹیچر یونین کاکہنا تھامحکمہ تعلیم ا سکولز پنجاب کی طرف سے سرکاری اسکولوں میں نئے داخلوں کی اجازت دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔

رانا لیاقت کا کہنا تھا نئے داخلوں کیلئے سرکاری  اسکولوں میں ہرہفتے کم از کم 4 روز کیلئے ایڈمشن ڈیسک قائم کئے جائیں ۔پرائیویٹ  اسکولوں کی بھاری فیسوں اور خراب معاشی حالات کی وجہ سے اس سال سرکاری اسکولوں میں زیادہ داخلوں کی توقع ہے ۔ لاہور میں 100 نئے انصاف اسکولز کا اجرا بھی فی الفور کیا جائے ۔ انصاف اسکولز میں بھی طلبہ داخل ہو کر زیور تعلیم سے آراستہ ہو سکیں گے ۔

 

کراچی: جامعہ این ای ڈی کےوائس چانسلر ہروفیسرڈاکٹرسروش حشمت لودھی کی زیرصدارت سخت حفاظتی اقدامات اور سماجی فاصلوں کا خیال رکھتے ہوئے آئی پی ای کا وزٹ ہوا
اس موقع پر ڈائریکٹر کیو ای سی شاہ لطیف یونی ورسٹی خیرپور پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق مہر نے ایکسٹرنل ممبر کی حیثیت سے شرکت کی جب کہ پرووائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد طفیل،رجسٹرار سید غضنفر حسین، کنٹرولر امتحانات، ڈائریکٹر کیو ای سی پروفیسر ڈاکٹر آصف شیخ سمیت ڈینزبھی شریک تھے۔
یادرہے کہ کووڈ19جیسی وبا میں بھی جامعہ این ای ڈی مکمل حفاظتی اقدامات کے ساتھ آئی پی ای کا وزٹ کروانے والی پہلی یونی ورسٹی ہے.
ویب ڈیسک : ویسےتوبچپن سےہم سب نے سنا ہے دنیا میں سات براعظم ہیں ، افریقہ، ایشیا، انٹارکٹیکا، آسٹریلیا، یورپ، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا لیکن سائنسدانوں دنیا میں آٹھویں براعظم ہونےکاانکشاف کیا ہے۔
یہ براعظم بحرالکاہل میں نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا سے منسلک ہے، اس کا بیشتر حصہ زیرآب ہے اور صرف چھ فیصد سمندر سے اوپر ہے اور اس کا بھی بیشتر حصہ نیوزی لینڈ پر مشتمل ہے۔
جنوبی بحرالکاہل میں ساڑھے 3 ہزار فٹ گہرائی میں چھپے اس براعظم کے مکمل نقشے 3 سال بعد مکمل کرکے جاری کیا گیا ہے۔
رواں ہفتےنیوزی لینڈ کے جی این ایس سائنس کے ائنسدانوں نےعلان کیا کہ انہوں نے اس گمشدہ براعظم کاحجم اورساخت کے نقشے مکمل تفصیلات کے ساتھ تیار کرلیے ہیں۔
ان نقشہ جات کو ایک انٹرایکٹیو ویب سائٹ پر لوڈ کیا گیا ہے تاکہ صارفین کہیں سے بھی اس براعظم کی سیر کرسکیں۔
سائنسدانوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم ان نقشوں کے ذریعے مستند، مکمل اور نیوزی لینڈ اور جنوب مغربی بحرالکاہل کی اپ ٹو ڈیٹ جغرافیاتی تصویر فراہم کررہے ہیں، جو پہلے سے زیادہ بہتر ہے۔
 
زیرآب براعظم کی ساخت کو اس نقشے میں دکھایا گیا ہے — فوٹو بشکریہ جی این ایس سائنس
 
ان نقشوں سے انکشاف ہوتا ہے کہ یہ براعظم کیسے وجود میں آیا اور لاکھوں برس پہلے سمندر میں ڈوب گیا۔
سائنسدانوں نے زی لینڈیا کے ارگرد، اس کی ساخت اور سمندر کی تہہ میں اس کی گہرائی کے نقشہ جات تیار کیے ہیں جبکہ براعظمی پلیٹس کی سرحدوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
زی لینڈیا کا رقبہ 20 لاکھ اسکوائر میل کے قریب ہے ، یعنی آسٹریلیا کے رقبے کے نصف کے برابر۔
اس کا جو 6 فیصد حصہ خشکی پر ہے وہ نیوزی لینڈ کے شمال اور جنوبی جزائر اور آئی لینڈ آف نیو کیلیڈونیا پر مشتمل ہے، جبکہ باقی زیرآب ہے۔
اس زیرآب براعظم کو سمجھنے کے لیے سائندانوں نے زی لینڈیا اور سمندری تہہ کے نقشے تیار کیے، جس میں دکھایا گیا کہ اس براعظم کی پہاڑیاں کتنی بلند اور پانی کی سطح پر ابھری ہوئی ہیں۔
اس کے خطے کی حد ، ساحلوں، اور دیگر نمایاں جغرافیائی خصوصیات کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
ایک اور نقشے میں زیرآب براعظم کے قطر کی قسم کا انکشاف کیا گیا ہے اور دیگر تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
2017 میں سائنسدانوں نے بتایا تھا کہ زی لینڈیا کے زیرآب حصے بھی لاکھوں، کروڑوں سال پہلے زمین کی سطح پر ہی موجود تھے اور اس زمانے میں سمندری درجہ حرارت بہت زیادہ تھا۔
ان کا اندازہ ہے کہ یہ براعظم 80 ملین سال پہلے آسٹریلیا اور انٹار کٹیکا سے الگ ہونے کے بعد مکمل طور پر زیرآب چلا گیا تھا۔
لگ بھگ تیس سے چالیس ملین سال پہلے پیسیفک رنگ آف فائر تشکیل پایا اور زیرلینڈیا کی سمندری تہہ ابھری۔
اب بھی اس براعظم کے دیگر رازوں کو جاننے کے لیے سائنسدانوں کی کوششیں جاری ہیں اور اسے مکمل طور پر کھوجنے کے لیے کافی وقت درکار ہوگا۔