جمعرات, 10 اکتوبر 2024
Reporter SS

Reporter SS

 
 
سکھر: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں سکھر کی احتساب عدالت نے پی پی رہنما خورشید شاہ کی ضمانت منظور کرلی۔
 
تفصیلات کے مطابق سکھر کی احتساب عدالت میں پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت ہوئی۔ وکیل صفائی رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ کو گرفتار کیے 90 روز گزر گئے، نیب کوئی ثبوت نہ ریفرنس پیش کرسکی۔
 
عدالت میں سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ خورشید شاہ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، استدعا ہے قانون کے مطابق کیس خارج کیا جائے۔
 
معزز جج نے نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کیا نیب نے ریفرنس فائل کیا، ریفرنس تیار کرکے منظوری کے لیے چیئرمین نیب کو بھجوا دیا گیا، 15 روز میں ریفرنس منظوری پر احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
 
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خورشید شاہ سمیت 18 افراد پرعبوری ریفرنس تیار کیا ہے، خورشید شاہ کے خلاف ریفرنس میں 1 ارب 24 کروڑ کے شواہد اکٹھے کیے۔
 
نیب نے احتساب عدالت سے خورشید شاہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 15 دن کی توسیع کی استدعا کی تھی۔ عدالت نے 50 لاکھ روپے کے عوض ضمانت منظور کرتے ہوئے خورشید شاہ کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
 
 
یاد رہے کہ 10 دسمبر کو نیب نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کے الزام میں گرفتار پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف کیس کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔
 
اسلام آباد کی خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کے حکم پر قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سابق صدر کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے۔
 
سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج محمود عالم رضوی اور متعدد وکلا کے مطابق پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں سنائے گئے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
 
سزا کے خلاف اپیل کیلئے پرویز مشرف کو پاکستان واپس آنا ہوگا، سابق جج
سابق جج محمود عالم رضوی نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ پرویز مشرف کے پاس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے لیکن انہیں اپیل دائر کرنے کے لیے واپس ملک آنا پڑے گا۔
 
 
 
محمود عالم رضوی کے مطابق ایسے کیسز میں سپریم کورٹ کا حکم موجود ہے جس کے تحت اگر کسی مفرور ملزم کو سزا سنائی جاتی ہے تو اسے واپس آکر اپیل دائر کرنی پڑے گی۔
 
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں مختصر فیصلہ سنایا ہے اور تفصیلی فیصلہ آنے سے قبل اس پر مکمل رائے نہیں دی جا سکتی۔
 
 
 
سابق جج کا کہنا تھا کہ ماضی میں اس کیس میں دائر کی جانے والی درخواستوں میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا کیس صرف ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ 2007 کی پوری حکومتی کابینہ پر چلنا چاہیے۔
 
ایک سوال کے جواب میں سابق جج نے واضح کیا کہ اگر پرویز مشرف خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کرتے تو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ خصوصی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کروائے۔
 
پرویز مشرف سزا کے خلاف 30 دن میں عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں، وکلا
اسی حوالے سے وکیل اور نجی ٹی وی کے رپورٹر عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ متعدد وکلا کا ماننا ہے کہ قانون کے مطابق سزا حاصل کرنے والا شخص 30 دن کے اندر فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔
 
عبدالقیوم صدیقی کے مطابق وکلا و قانونی ماہرین کے مطابق اپیل دائر کرنے کے لیے ملزم کو عدالتی حدود میں جسمانی طور پر رہنا ہوگا اور خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں 30 دن کے اندر درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔
اسد فاروق | ثمین داؤد خاناپ ڈیٹ 3 گھنٹے پہلے

سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے 1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے اور خود کو ملک کا چیف ایگزیکٹو قرار دینے کے 8 سال بعد 2007 میں ایک نیا بحران پیدا ہوا جب انہوں نے ملک میں ایک مرتبہ پھر ایمرجنسی نافذ کی۔

 

 

اس سال 3 نومبر سے 15 دسمبر کے مختصر عرصے کے لیے آئین معطل رہا تھا اور چیف جسٹس سمیت متعدد ججز کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

اس کے بعد احکامات کا اعلان کیا گیا جس میں جون 2001 میں صدر کے عہدے پر خود تعینات ہونے والے پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے 'دہشت گردی اور شدت پسندی سے نمٹنے میں ایگزیکٹوز اور قانون کے برعکس کام کرنے' کو بنیاد بنا کر ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

یہاں ڈان ڈاٹ کام نے تاریخ کے اِن اہم واقعات اور پرویز مشرف کے سیاسی کیریئر کو یکجا کیا ہے۔


3 نومبر، 2007: پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے 1973 کے آئین کو معطل کردیا جس کی وجہ سے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلیٰ عدالت کے 61 ججز فارغ ہوگئے۔

 

 

ملک کے تمام نجی چینلز کو بند کردیا گیا اور صرف سرکاری نشریاتی ادارے 'پی ٹی وی' پر ایمرجنسی کے احکامات نشر کیے گئے جس میں 'انتہا پسندوں کی سرگرمیوں میں بڑھتے ہوئے اضافے کو' ایمرجنسی کی وجہ بتایا گیا۔

28 نومبر، 2007: پرویز مشرف سیاست سے ریٹائر ہوئے اور فوج کی کمان جنرل اشفاق پرویز کیانی کو سونپی۔

29 نومبر، 2007: ریٹائرڈ جنرل نے عوامی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔

15 دسمبر، 2007: پرویز مشرف نے ایمرجنسی ختم کی اور عبوری آئینی حکم نامہ (پی سی او) واپس لیا اور صدارتی فرمانوں کے ذریعے ترمیم شدہ آئین کو بحال کیا۔

سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججز نے تازہ حلف اٹھایا۔

7 جون، 2008: پرویز مشرف نے واضح کیا کہ ان کا استعفیٰ دینے یا جلا وطن ہونے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

18 گست، 2008: ملک پر 9 سال تک حکمرانی کے بعد پرویز مشرف نے عہدہ چھوڑ دیا جس کی وجہ سے ان کے خلاف مواخذے کے امکانات ختم ہوگئے۔

22 جولائی، 2009: سپریم کورٹ نے سابق فوجی حکمران کو 3 نومبر 2007 کے اقدامات کا دفاع کرنے کے لیے طلب کیا۔

یکم اگست، 2009: سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر 2007 کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور ان کے پی سی او غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔

عدالت نے انہیں جواب جمع کرانے کے لیے 7 روز کی مہلت بھی دی۔

 

6 اگست، 2009: پرویز مشرف ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے پاکستان چھوڑ کر برطانیہ چلے گئے۔

8 جون، 2010: سابق صدر کے سیاسی ساتھیوں نے سیاسی جماعت بنائی جس کا نام آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) رکھا گیا اور اس کے سربراہ پرویز مشرف تھے۔

22 مارچ، 2013: پرویز مشرف کو ملک واپس آنے پر 10 روز کی حفاظتی ضمانت ملی۔

24 مارچ، 2013: خود ساختہ جلا وطن ہونے والے سابق صدر عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پاکستان واپس آئے۔

27 مارچ 2013: سینیئر وکیل اے کے ڈوگر نے انتخابات کے دوران آرٹیکل 62 اور 63 پر سختی سے عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ کو پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007 کے اقدام کا حوالہ دیا۔

29 مارچ، 2013: سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی ضمانت میں توسیع کی تاہم حکم دیا کہ وہ بغیر اجازت ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔

فیصلے کا اقتباس پڑھتے ہوئے انہوں نے موقف اپنایا کہ آئین معطل کرنے سے مشرف نے سنگین غداری کی ہے۔

29 مارچ، 2013: سپریم کورٹ نے سابق فوجی حکمران کو ان کے خلاف سنگین غداری کیس میں طلب کیا۔

عدالت نے وزارت داخلہ کو ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا بھی حکم دیا۔

29 مارچ 2013: سندھ ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی ضمانت میں توسیع کی تاہم حکم دیا کہ وہ ملک سے بغیر اجازت باہر نہیں جاسکتے۔

5 اپریل 2013: سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری ایکٹ 1973 کے دفعہ 2 اور 3 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت منظور کی۔

7 اپریل 2013: چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

18 اپریل، 2013: پرویز مشرف ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی حدود سے فرار ہوگئے۔

19 اپریل، 2013: پرویز مشرف نے ججز کو حراست میں لینے کے کیس میں مجسٹریٹ عدالت کے آگے سرنڈر کردیا۔

اسلام آباد میں ان کے فارم ہاؤس چک شہزاد کو 'سب جیل' قرار دیا گیا۔

30 اپریل، 2013: پشاور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف پر قومی اسمبلی یا سینیٹ کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی۔

5 جون، 2013: اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے ججز کو حراست میں لینے کے کیس میں پرویز مشرف کی گرفتاری کے بعد ضمانت کی درخواست سننے سے انکار کردیا اور کہا کہ 'جب میں نے اپریل میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد کی تھی تو میرے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلائی گئی تھی'۔

14 جون، 2013: اس وقت کے وزیر قانون و انصاف جسٹس زاہد حامد نے 2007 کے ایمرجنسی کیس سے خود کو الگ کرلیا۔

وزیر کا کہنا تھا کہ ان پر پرویز مشرف کے ساتھ زیادتی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ سابق صدر نے یہ اعلان خود کیا تھا۔

انہوں نے پرویز مشرف کے ساتھ کسی قسم کے رابطے کو بھی مسترد کردیا۔

24 جون، 2013: وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ان کی حکومت سپریم کورٹ سے پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کی درخواست کرے گی۔

وزیر اعظم نواز شریف 24 جون 2013 کو قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی
وزیر اعظم نواز شریف 24 جون 2013 کو قومی اسمبلی سے خطاب کر رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

 

18 نومبر، 2013: چیف جسٹس افتحار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کا کیس چلانے کے لیے خصوصی ٹربیونل قائم کرنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔

13 نومبر، 2013: مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے 5 الزامات عائد کیے تھے۔

12 دسمبر، 2013: خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کا سامنا کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔

20 دسمبر، 2013: سابق آرمی چیف نے انٹرویو میں اپنے دور حکمرانی کے دوران کچھ بھی غلط کام کرنے پر 'معافی' طلب کی تھی۔

2 جنوری، 2014: پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس کی سماعت کے لیے خصوصی عدالت لے جاتے ہوئے 'دل کے عارضے' کی وجہ سے ہسپتال لے جایا گیا۔

ان کے وارنٹ گرفتاری طبی بنیادوں پر جاری نہیں کیے گئے تھے۔

7 جنوری، 2014: آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (اے ایف آئی سی) نے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ سابق آرمی چیف کے 'دل کی 3 شریانیں بند ہیں اور دیگر 8 بیماریاں' لاحق ہیں۔

16 جنوری، 2014: خصوصی عدالت نے اے ایف آئی سی کو سابق صدر کی صحت کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے اور رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا جس نے پرویز مشرف کی حالت کو 'سنگین' بتایا اور ان کا علاج ان کے مرضی کے مقام پر کرنے کی تجویز دی۔

28 جنوری، 2014: استغاثہ نے پرویز مشرف کی میڈیکل رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے خصوصی عدالت سے اے ایف آئی سی کے سربراہ کو جرح کے لیے طلب کرنے کی درخواست کی۔

7 فروری، 2014: خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں دوبارہ پیش ہونے کا کہا۔

18 فروری، 2014: 22 سماعتوں میں عدم پیشی کے بعد پرویز مشرف عدالت میں پیش ہوئے تاہم ان پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی کیونکہ دفاع نے موقف اپنایا کہ ان کے خلاف کیس کی سماعت فوجی عدالت میں ہونی چاہیے۔

پرویز مشرف کے حامی اسلام آباد میں عدالت کے باہر ان کا پوسٹر اٹھائے ہیں — فوٹو: اے پی
پرویز مشرف کے حامی اسلام آباد میں عدالت کے باہر ان کا پوسٹر اٹھائے ہیں — فوٹو: اے پی

 

21 فروری، 2014: خصوصی عدالت نے حکم جاری کیا کہ سابق آرمی چیف کا فوجی عدالت میں ٹرائل نہیں ہوگا۔

30 مارچ، 2014: پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں فرد جرم عائد کی گئی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔

یکم اپریل، 2014: مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پرویز مشرف کی بیمار والدہ کو پاکستان سے شارجہ لے جانے کی پیشکش کی۔

2 اپریل، 2014: حکومت نے پرویز مشرف کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی درخواست مسترد کی تھی۔

3 اپریل، 2014: پرویز مشرف نے سپریم کورٹ میں ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست دائر کی تاکہ وہ اپنی بیمار والدہ کی عیادت کے لیے بیرون ملک جاسکیں۔

7 اپریل، 2014: آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس پر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا کہ 'حالیہ دنوں میں ادارے (فوج) پر ہونے والی تنقید کے رد عمل میں فوج اپنا وقار اور ادارے کا فخر کا تحفظ کرے گی'۔

14 مئی، 2014: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پرویز مشرف پر غیر قانونی طور پر 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے 'ناقابل تلافی' شواہد پیش کیے۔

12 جون، 2014: سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کے بیرون ملک سفر پر پابندی کے فیصلے کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 'سابق صدر کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کی کوئی وجہ پیش نہیں کی گئی ہے'۔

13 جون، 2014: خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی 2007 کی ایمرجنسی میں 'اعانت'، جنہوں نے اس کی تجویز دی، اس کی تائید کی اور اس کو نافذ کیا، کی تفصیلات کی درخواست مسترد کردی۔

14 جون، 2014: حکومت نے عدالت عظمیٰ میں سندھ ہائی کورٹ کی پرویز مشرف کو بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کی۔

23 جون، 2014: عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات اپیل کے زیر التوا ہونے تک معطل کردیے جس کے تحت پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

8 ستمبر، 2014: پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے 2007 میں ایمرجنسی عائد کرنے کے حوالے سے اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے کردار سے متعلق اہم ثبوت کی طرف نشان دہی کی۔

15 اکتوبر، 2014: سابق صدر کی قانونی ٹیم نے خصوصی عدالت سے پرویز مشرف کے تمام ساتھیوں کا ٹرائل ایک ساتھ کرنے کی درخواست کی۔

21 نومبر، 2014: خصوصی عدالت نے وفاقی حکومت کو غداری کیس میں اپنی درخواست دوبارہ جمع کرانے کی ہدایت کی اور چارج شیٹ میں میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز، اس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے نام شامل کرنے کا کہا۔

22 دسمبر، 2015: پرویز مشرف نے کہا کہ انہوں نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت دیگر سیاسی و عسکری رہنماؤں سے مشاورت کے بعد ایمرجنسی نافذ کی۔

14 مارچ، 2016: سابق صدر نے طبی بنیادوں پر ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت طلب کی۔

16 مارچ، 2016: سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔

18 مارچ، 2016: پرویز مشرف یہ وعدہ کرتے ہوئے علاج کے لیے دبئی روانہ ہوئے کہ وہ چند ہفتے میں وطن واپس لوٹ آئیں گے۔

 

 

11 مئی، 2016: سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا۔

16 نومبر، 2016: پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کو سنگین غداری کیس سے منسلک کر دیا گیا۔

27 فروری، 2017: سابق صدر نے ٹی وی پر بطور تجزیہ کار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

10 نومبر، 2017: پرویز مشرف نے 23 سیاسی جماعتوں کے 'گرینڈ الائنس' کا اعلان کیا جو پاکستان عوامی اتحاد (پی اے آئی) کے زیر سایہ کام کرے گا۔

29 مارچ، 2018: جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے سنگین غداری کیس کی سماعت سے معذرت کے بعد خصوصی عدالت کا بینچ تحلیل ہوگیا۔

7 اپریل، 2018: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے مشرف غداری کیس کا بینچ دوبارہ تشکیل دیا۔

31 مئی، 2018: وزارت داخلہ نے خصوصی عدالت کے احکامات کی روشنی میں نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل امیگریشن اور پاسپورٹ کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ معطل کرنے کی ہدایت کی۔

7 جون، 2018: سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو اس شرط پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی کہ وہ عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہوں گے۔

20 جون، 2018: مشرف نے کہا کہ وہ پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے لیکن سپریم کورٹ کے حکام کو انہیں گرفتار کرنے کے احکامات کے باعث انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہے۔

30 جولائی، 2018: سنگین غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

3 اگست، 2018: خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے کی وجہ سے رکنے والے ٹرائل کے 20 اگست سے دوبارہ آغاز کا فیصلہ کیا۔

20 اگست، 2018: جان کو خطرات لاحق ہونے کا حوالہ دے کر مشرف نے غداری کیس میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے صدارتی سیکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا۔

29 اگست، 2018: خصوصی عدالت کو بتایا گیا کہ انٹرپول نے مشرف کو متحدہ عرب امارات سے پاکستان واپس لانے کے لیے انٹرپول نے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔

2 اکتوبر، 2018: چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو 'بہادر کمانڈو' کہنے والے مشرف کے واپس نہ آنے پر ان کے وکیل کی سرزنش کی۔

24 اکتوبر، 2018: آل پاکستان مسلم لیگ (اے پی ایم ایل) نے اپنے بیان میں کہا کہ مشرف کو ایمیلوئڈوسز (Amyloidosis) کی بیماری لاحق ہے جس کے باعث انہیں کھڑے رہنے اور چلنے میں مشکلات ہیں۔

19 نومبر، 2018: خصوصی عدالت نے مشرف کے وکیل سے کہا کہ وہ اپنے موکل کو وطن واپسی کے لیے قائل کریں تاکہ سنگین غداری کیس کی کارروائی آگے بڑھے۔

31 مارچ، 2019: سپریم کورٹ نے مشرف کو حکم دیا کہ وہ غداری کیس میں 2 مئی کو خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہو ورنہ وہ اپنے دفاع کا حق کھو دیں گے۔

یکم اپریل، 2019: چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے خصوصی عدالت کے لیے حکم جاری کیا کہ پرویز مشرف اگر مقررہ تاریخ تک اپنا بیان ریکارڈ نہیں کراتے تو وہ غداری کیس کو ان کے بیان کے بغیر کی آگے بڑھائے۔

11 جون، 2019: سپریم کورٹ نے نادرا کو پرویز مشرف کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا۔

30 جولائی، 2019: غداری کیس میں پراسیکیوشن سربراہ نے استعفیٰ دیا۔

8 اکتوبر، 2019: خصوصی عدالت نے 24 اکتوبر سے غداری کیس کی سماعت روزانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

24 اکتوبر، 2019: غداری کیس میں پی ٹی آئی نے پراسیکیوشن ٹیم کو برطرف کردیا۔

19 نومبر، 2019: سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے اپنی سماعت مکمل کرلی اور کہا کہ فیصلہ 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔

23 نومبر، 2019: پرویز مشرف نے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

25 نومبر، 2019: کیس نے نیا رخ لیا اور وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس میں پراسیکیوشن کو سنے بغیر خصوصی عدالت کے غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

26 نومبر، 2019: لاہور ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کے خلاف پرویز مشرف کی درخواست سماعت کے لیے قبول کر لی۔

27 نومبر، 2019: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا۔

28نومبر، 2019: خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے اور 3 ججز پر مشتمل بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔

اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے فیصلہ محفوٖظ کرنے کے خلاف دائر درخواست میں وفاقی حکومت کو 3 دسمبر تک مکمل ریکارڈ جمع کروانے کا حکم دیا۔

3 دسمبر، 2019: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روکنے کے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ خصوصی عدالت اس کےفیصلے کی پابند ہے۔

اسی روز لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی درخواست پر وفاقی حکومت کو سابق صدر کے خلاف سنگین غداری کیس کا مکمل ریکارڈ پیش کرنے کے لیے وقت دیا تھا۔

3 دسمبر ہی کو پرویز مشرف کو امراض قلب اور فشار خون (بلڈ پریشر) کے حوالے سے پیچیدگیوں کے باعث دبئی کے ہسپتال میں داخل کروادیا گیا۔

4 دسمبر، 2019: پرویز مشرف نے دبئی کے ہسپتال سے جاری ویڈیو پیغام میں کہا کہ 'اس کیس میں میری سنوائی نہیں ہورہی، صرف یہی نہیں کہ میری سنوائی نہیں ہورہی بلکہ میرے وکیل سلمان صفدر کو بھی نہیں سن رہے، میری نظر میں بہت زیادتی ہورہی ہے اور انصاف کا تقاضہ پورا نہیں کیا جارہا'۔

5 دسمبر، 2019: اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں استغاثہ کو 17 دسمبر تک کی مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اس تاریخ کو دلائل سن کر فیصلہ سنا دیں گے۔

10 دسمبر، 2019: لاہور ہائی کورٹ نے سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے کے خلاف سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی درخواست پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو سیکریٹری داخلہ سے ہدایت لے کر پیش ہونے کا حکم دیا۔

12 دسمبر، 2019: لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر توفیق آصف نے سابق صدر کے خلاف خصوصی عدالت میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔

16 دسمبر، 2019: لاہور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی کارروائی رکوانے کے لیے دائر کی گئی متفرق درخواست پر وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔

17 دسمبر، 2019: لاہورہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پرویز مشرف کی جانب سے دائر درخواستوں پر فل بینچ بنانے کی سفارش کرتے ہوئے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا۔

اسی روز خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم دیا۔

 
 
 
 
 
اسلام آباد: ایل این جی اسکینڈل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب کے گواہ بن گئے۔
 
تفصیلات کے مطابق شیخ رشید احتساب عدالت میں ایل این جی کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کے خلاف گواہی دیں گے، اس کیس میں نیب مجموعی طور پر 59 گواہان عدالت میں پیش کرے گا۔
 
وفاقی وزیر شیخ رشید بہ طور شکایت کنندہ نیب کے پہلے گواہ ہوں گے، وزارت توانائی کے 4 افسران حسن بھٹی، نواز احمد ورک، عبدالرشید جوکھیو اور عمر سعید بھی گواہان میں شامل ہیں۔ قائم مقام جی ایم سوئی سدرن گیس فصیح الدین بھی گواہان میں شامل ہیں، جب کہ جمیل اجمل ڈائریکٹر پورٹ قاسم اتھارٹی بھی استغاثہ کے گواہ ہوں گے۔
 
 
 
یاد رہے کہ 12 دسمبر کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ریفرنس دوبارہ دائر کر دیا تھا، جسے احتساب عدالت نے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا، ریفرنس میں شاہد خاقان سمیت 10 ملزمان نامزد ہیں۔
 
اس ریفرنس میں رجسٹرار احتساب عدالت کے اعتراضات دور کیے گئے ہیں، ریفرنس 8 ہزار صفحات پر مشتمل ہے، جو اختیارات کے غلط استعمال پر دائر کیا گیا، ملزمان میں مفتاح اسماعیل کا نام بھی شامل ہے، ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی کو 21 ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا گیا، مارچ 2015 سے ستمبر 2019 تک یہ فائدہ پہنچایا گیا، 2029 تک قومی خزانے کو 47 ارب روپے کا نقصان ہوگا اور عوام پر گیس بل کی مد میں 15 سال میں 68 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔
 
 
 
 
لاہور: لاہور ہائی کورٹ میں گرفتار وکلا کی رہائی اور گھروں پر چھاپوں کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی سی میں جو کچھ ہوا وہاں جانے والوں نے سب کامنہ کالا کیا، وکلا اپنے حقوق کے لیے کیوں نہیں کھڑے ہوئے؟
 
پی آئی سی حملے سے متعلق وکلا کی گرفتاریوں کے خلاف درخواست پر ہائیکورٹ کا تیسرا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس سردار شمیم نے نیا بینچ تشکیل دیا، 2رکنی بینچ میں جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس سرداراحمد نعیم شامل ہیں۔
 
دوران سماعت ملک بھر کی بار ایسویسی ایشنز نے پی آئی سی واقعہ پر عدالت کے سامنے معافی مانگ لی۔ عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کو اسپتال جانے کی ضرورت کیا تھی؟ معاملات ایک دو دن میں یہاں تک نہیں پہنچے، جنہوں نے کلنک کا ٹیکہ لگایا وہ 2فیصد ہیں، 2فیصد نے 100فیصد وکلا کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
 
عدالت نے کہا کہ ایسے وکلا کے خلاف بار نے کیوں کارروائی نہیں کی؟ 2 فیصد وکلا کے عمل پر ہائیکورٹ کا کوئی جج ان کا کیس سننے کو تیار نہیں، وکلا ڈیڑھ گھنٹے سڑکوں پر رہے انتظامیہ نے روکنے کی کوشش کیوں نہ کی؟
 
 
وکیل اعظم نذیر تارڈ کا کہنا تھا کہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بار کی مکمل ناکامی ہے، وکلا کے اندرونی احتساب کا عمل سخت کیا جائے گا، پی آئی سی میں جو کچھ ہوا تمام بار ایسوسی ایشنز نے مذمت کی، وقوعہ میں 100 سے کم وکلا تھے مگر پولیس تمام وکلا کو تنگ کر رہی ہے، گرفتار وکلا کو قانونی امداد فراہم نہیں کرنے دی گئی۔
 
جس پر عدالت نے کہا کہ ہائیکورٹ کو سنجیدہ خطرہ ہے، وکلا چھوٹے چھوٹے گروپ میں رہیں، ایک جگہ زیادہ وکلا اکٹھے نہ ہوں، یہ خطرہ ججوں کے لیے بھی ویسا ہی ہے۔ سماعت کل تک ملتوی کرتے ہوئے عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو فیصلے پر عمل درآمد کی ہدایت کی۔
 
لاہورہائی کورٹ نے چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری اور آئی جی کو طلب کرلیا، عدالت نے پی آئی سی کے سربراہ کو بھی طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ جسٹس علی باقرنجفی کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے کیس واپس بھجوا دیا تھا جس کے بعد نئی بینچ تشکیل دی گئی۔
 
 
 
 
جنیوا: وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان غریب ہونے کے باوجود 30 لاکھ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کی 40 سال سے زیادہ میزبانی پر فخر ہے۔
 
وزیر اعظم عمران خان نے جنیوا میں گلوبل ریفیوجی فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ریفیوجی گلوبل فورم کے انعقاد پر خوشی ہے، اس فورم کے انعقاد پر سوئس حکومت اور یو این ایچ سی آر کا شکریہ۔
 
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے نبی مہاجر تھے، پاکستان غریب ہونے کے باوجود 30 لاکھ مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ سب سے زیادہ مہاجرین کو پناہ دینے پر ترک صدر اور قوم کو مبارکباد دیتا ہوں۔
 
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو خود بے روزگاری کے مسائل کا سامنا ہے، ایسے حالات کا خاتمہ کرنا ہوگا جس سے لوگ مہاجر بنتے ہیں۔ پاکستان کو افغان پناہ گزینوں کی 40 سال سے زیادہ میزبانی پر فخر ہے۔ پاکستان افغانستان میں امن عمل کے لیے بھرپور کوشش کر رہا ہے۔
 
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارت نے 5 اگست کو کشمیری عوام کا محاصرہ کیا۔ 80 لاکھ کشمیریوں کو قید کر دیا گیا۔ انٹرنیٹ اور مواصلات معطل کردی گئی۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا منصوبہ ہے۔ عالمی برادری کو اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔
 
انہوں نے کہا کہ کرفیو اٹھے گا تو کیا ہوگا، مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوجی ہیں۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے، دنیا کو بھارت پر دباؤ ڈال کر بحران کو روکنا چاہیئے۔ پاکستان صرف پناہ گزینوں کے حوالے سے فکر مند نہیں۔ دو ایٹمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھی تو کیا ہوگا اس کا خدشہ ہے۔
 
وزیر اعظم نے کہا کہ آسام میں 20 لاکھ افراد جن میں بیشتر مسلمان ہیں، کو شہریت کے ثبوت دینے کا کہا گیا۔ مسلمانوں کے علاوہ تمام لوگوں کو بھارت کی شہریت دینے کا قانون لایا گیا۔ پاکستان میں 20 کروڑ مسلمان ہیں، اس کا کیا اثر ہوگا سمجھنے کی ضرورت ہے، اگر بحران پیدا ہوا تو قابو پانا مشکل ہوگا۔
 
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری نوٹس لے، پڑوس میں کچھ ہوا تو اثرات پاکستان پر بھی ہوں گے۔ ہمارے ملکی وسائل ایسے نہیں کہ مزید مہاجرین کا بوجھ اٹھا سکیں۔ بے بس اور بے وسیلہ مہاجرین کے مسائل کا امیر ملک ادراک نہیں کر سکتے۔

سنگین غداری کیس میں سابق صدر اور جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت کا فیصلہ دیے جانے پروفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے ادارے تقسیم ہوں

انہوں نے مزید کہا کہ ایسے فیصلوں کا کیا فائدہ جن سے فاصلےاورتقسیم بڑھے اور قوم و ادارے تقسیم ہوں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ وقت کے تقاضے ہوتے ہیں ملک کو جوڑنے کی ضرورت ہے، میں مسلسل کہہ رہاہوں گفتگو کی نئے معاہدےکی ضرورت ہے ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا کسی کے مفاد میں نہیں، ملک پر رحم کریں۔

 

اطلاعات کے مطابق محکمہ تعلیم کی جانب سےوفاقی دارالحکومت اسلام ٓباد کے سرکاری اسکولوں میں موسم سرما کی تعطیلات کا اعلان کر دیا گیا

تعطیلات کا آغاز ۲۳ دسمبر سے ہگا جب کہ تعتیلات کا اختتام ۳۱ دسمبر ۲۰۱۹ کو ہوگا۔

یکم جنوری سے تمام سرکاری اسکول دوبارہ تعلیمی سرگرمیاں شروع کریں گے۔

اسلام آباد: ایل این جی اسکینڈل کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف نیب کے گواہ بن گئے۔

تفصیلات کے مطابق شیخ رشید احتساب عدالت میں ایل این جی کیس میں مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی کے خلاف گواہی دیں گے، اس کیس میں نیب مجموعی طور پر 59 گواہان عدالت میں پیش کرے گا۔

وفاقی وزیر شیخ رشید بہ طور شکایت کنندہ نیب کے پہلے گواہ ہوں گے، وزارت توانائی کے 4 افسران حسن بھٹی، نواز احمد ورک، عبدالرشید جوکھیو اور عمر سعید بھی گواہان میں شامل ہیں۔ قائم مقام جی ایم سوئی سدرن گیس فصیح الدین بھی گواہان میں شامل ہیں، جب کہ جمیل اجمل ڈائریکٹر پورٹ قاسم اتھارٹی بھی استغاثہ کے گواہ ہوں گے۔

 نیب نے شاہد خاقان عباسی کیخلاف ایل این جی ریفرنس دوبارہ دائر کردیا

یاد رہے کہ 12 دسمبر کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ریفرنس دوبارہ دائر کر دیا تھا، جسے احتساب عدالت نے باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا، ریفرنس میں شاہد خاقان سمیت 10 ملزمان نامزد ہیں۔

اس ریفرنس میں رجسٹرار احتساب عدالت کے اعتراضات دور کیے گئے ہیں، ریفرنس 8 ہزار صفحات پر مشتمل ہے، جو اختیارات کے غلط استعمال پر دائر کیا گیا، ملزمان میں مفتاح اسماعیل کا نام بھی شامل ہے، ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی کو 21 ارب روپے سے زائد کا فائدہ پہنچایا گیا، مارچ 2015 سے ستمبر 2019 تک یہ فائدہ پہنچایا گیا، 2029 تک قومی خزانے کو 47 ارب روپے کا نقصان ہوگا اور عوام پر گیس بل کی مد میں 15 سال میں 68 ارب سے زائد کا بوجھ پڑے گا۔