Reporter SS
سکھر: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ انسانوں کا سیلاب ایوانوں کے کچرے کواپنے ساتھ بہا کرلے جائے گا۔
سکھر میں آزادی مارچ کے دوسرے مرحلے پر ملتان روانگی سے قبل اپنے خطاب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سب جانتے ہیں حکمرانوں نے کشمیر کا سودا کرلیا ہے، انہوں نے کشمیرکا مسئلہ گمبھیرکردیا ہے۔ یہ پاکستان کی نمائندہ حکومت نہیں ہے، جبر کی بنیاد پر عوام پر حکومت نہیں کی جا سکتی، تمام سیاسی جماعتیں ملک پر جبر محسوس کر رہی ہیں، ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور یہ ملک کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ حکمران ملک کی کشتی کوڈبورہے ہیں جسے عوام کو بچانا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پاکستان کے وجود اور آئین کو خطرہ ہے، آئین پاکستان کو دیباچہ اور بچوں کا کھیل بنا دیا گیا ہے، ہم آئین ،جمہوریت اور اسلام کےلیے نکلے ہیں، ہم ملک میں جمہوریت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں، ہم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، سیاسی جنگ کا طبل جنگ بج چکا ہے، ہمیں سیاسی جنگ لڑنی ہے، عوام اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے تاکہ قوم کو ظالموں سے نجات مل سکے ،آج انسانوں کا سیلاب اسلام آباد کی طرف جا رہا ہے، یہ طوفان ایوانوں کے کچرے کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔
لاہور: وفاقی حکومت نے فضل الرحمن کیخلاف بغاوت کی کارروائی کی مخالفت کردی۔
لاہورہائیکورٹ نے مولانا فضل الرحمن کا مارچ روکنے اور اشتعال انگیز تقاریر پر ان کے خلاف بغاوت کی کارروائی کی متفرق درخواست کی سماعت کی۔
عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی اور اس نوعیت کی تمام درخواستوں کو یکجا کرکے لگانے کی ہدایت کردی۔
اسلام آباد: آل پاکستان انجمن تاجران اور ایف بی آرکے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے اور تاجر برادری نے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال واپس نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے کہاہے کہ شناختی کارڈ کی شرط ناممکن اور پیچیدہ ڈاکیومنٹیشن ہے، ایف بی آر کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرتے وقت سوچنا چاہیے تھا۔ 29 اور30 اکتوبر کو ہر حال میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوگی۔ آل پاکستان انجمن تاجران اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جس کی وجہ سے ڈیڈ لاک بر قرار ہے۔
آئی ایم ایف کو حکومت سے معاہدہ کرتے وقت پاکستان میں شرح خواندگی کا خیال رکھنا چاہیے۔ اجمل بلوچ نے کہاکہ سخت شرائط کے تحت معاہدے نے کاروبار کو تباہ کردیا ہے۔ یکم جولائی سے کاروبار کا پہیہ رک گیا ہے جس سے تاجر سخت پریشان ہیں۔ حکومت کو یہ بات سمجھ میں آجانا چاہیے کہ کاروبار نہیں ہوگا تو ٹیکس کہاں سے آئے گا۔