جمعہ, 17 مئی 2024

اسلام آباد: خصوصی عدالت نے سابق صدر اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین شکنی کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا۔

تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا، سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی گئی۔ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ میں شامل ایک جج نے سزائے موت سے اختلاف کیا، تاہم خصوصی عدالت کے بینچ نے اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

قبل ازیں، اسلام آباد میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت ہوئی، سابق صدر کی جانب سے ان کے وکیل نے خصوصی عدالت میں دفعہ تین سو بیالس میں بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست دائر کر دی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں، خصوصی عدالت بیان ریکارڈ کرانے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے، اور عدالتی کمیشن یو اے ای جا کر پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرے

دوسری طرف حکومت نے مشرف کے خلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کر دی ہے، جس میں شوکت عزیز، عبد الحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی گئی ہے، پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔

عدالت نے اس پر کہا کہ ساڑھے 3 سال بعد ایسی درخواست کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ آج مقدمہ حتمی دلائل کے لیے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ جنھیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ تو گزر چکا ہے، کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟

پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہو سکتی ہیں، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی کا کہا۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟

دریں اثنا، خصوصی عدالت نے استغاثہ کی جانب سے شوکت عزیز، زاہد حامد، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو پارٹی بنانے کی دائر درخواست یہ کہہ کر واپس کر دی کہ آج کی عدالتی کارروائی مکمل ہو گئی ہے، درخواست دائر کرنے سے پہلے عدالت اور نہ ہی کابینہ سے منظوری لی گئی، پراسیکیوشن کی دیگر 2 درخواستوں پر بھی سماعت نہیں ہو سکتی، یہ دونوں درخواستیں عدالت کے سامنے نہیں ہیں۔

آئین شکنی کیس کی اہم باتیں

یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا کیس مسلم لیگ ن نے نومبر 2013 میں درج کرایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کی حیثیت سے پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگائی۔ مارچ 2014 میں پرویز مشرف پر فرد جرم  عائد کی گئی۔ 2016 میں عدالتی حکم پر ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ مارچ 2018 میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

گزشتہ برس مارچ میں سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم کی گرفتاری اور جائیداد ضبطی اور انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستان لانے کا بھی حکم جاری کیا تھا۔ تاہم اگست میں سیکریٹری داخلہ نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف کو پاکستان لانے کے معاملے پر انٹرپول نے معذرت کرلی ہے اور کہا کہ سیاسی مقدمات ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

5 دسمبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو آئین شکنی کیس میں دلائل دینے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سماعت آخری بار ملتوی کی جارہی ہے، کسی بھی وکیل کی عدم حاضری پر محفوظ فیصلہ 17 دسمبر کو سنا دیا جائے گا۔

خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئین شکنی کیس 19 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جس پر 23 نومبر کو پرویز مشرف کی جانب سے عدالت سے رجوع کیا اور کہا کہ عدالت نے مؤقف سنے بغیر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ہے۔

2 دسمبر کو جنرل (ر) پرویز مشرف شدید علیل ہو گئے تھے، جس پر انھیں دبئی کے اسپتال میں داخل کیا گیا، اکتوبر کے مہینے میں ایک میڈیکل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو ایک جان لیوا بیماری لاحق ہے، اے آر وائی نیوز کو موصول ہونے والے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کے مطابق سابق صدر کو ’امیلوئی ڈوسس نامی خطرناک بیماری لاحق ہوئی تھی۔

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ لاہور میں پیش آنے والا واقعہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔

سپریم کورٹ میں فوری اور سستے انصاف کی فراہمی سے متعلق قومی کانفرنس  سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹرز اور وکیل دونوں معاشرے کا باوقار حصہ ہیں، دونوں پیشوں کےساتھ گراں قدرروایات منسلک ہیں ، لاہور میں پیش آنے والا واقعہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے، پی آئی سی واقعہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے.

اس لئے اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا، معزز پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو خود احتسابی کےعمل سے گزرنا ہوگا، امید ہے اس طرح کے واقعات مستقبل میں پیش نہیں آئیں گے، متاثرہ خاندان کےساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔

 جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم نے نظام میں رہتے ہوئے انصاف کے عمل کو مختصر کیا، ماڈل کورٹس کے ذریعے تیز تر انصاف کو یقینی بنایاگیا،ایسا نظام بنایا ہے کہ 17دنوں میں چالان آجائے

اسلام آباد: چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس 20 دسمبر کوہوگا۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس 20 دسمبرکوکورٹ روم نمبرایک میں ہوگا۔ فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام ججزشرکت کریں گے۔

فل ریفرنس میں چیف جسٹس آ صف سعید کھوسہ، نامزد چیف جسٹس گلزاراحمد سمیت اٹارنی جنرل انورمنصور اور بار کے نمائندے بھی خطاب کریں گے

لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے اضافی فیسوں کی وصولی کیخلاف درخواست پر عبوری فیصلہ جاری کرتے ہوئے نجی اسکولوں کو فیس کے معاملے پر بچوں کو تعلیمی اداروں سے نکالنے سے روکدیا ۔
 
لاہو ر ہائیکورٹ کے جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اضافی فیس کی عدم ادائیگی پر بچوں کی عزت نفس مجروح نہ کیا جائے ۔
 
سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی کے مطابق فیسیں وصول کی جائیں گی۔ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں کے معاملے پر جامع رپورٹ پیش کرے گی۔
 
اضافی فیسوں کیخلاف درخواستوں پر آئندہ سماعت 11 دسمبر کو ہوگی ۔ عدالت نے وصول کی جانے والی اضافی فیس سات دنوں میں واپس کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کی ویب سائیٹ کے مطابق نامزد چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا تعلق کراچی سے ہے
 
وہ 2 فروری 1957 کو پیدا ہوئے، انہوں نے ایس ایم لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی، 1986 سے انہوں نے بطور وکیل اپنا کیریئر شروع کیا۔
 
جسٹس گلزار احمد 27 اگست 2002 کو سندھ ہائی کورٹ جب کہ 16 نومبر 2011 کو سپریم کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔
 
انہوں نے کئی اہم مقدمات کے فیصلے سنائے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد کو کیمبرج یونیورسٹی کی 200 سالہ تاریخ میں خطاب کرنے والے پہلے پاکستانی ہونے کا اعزاز حاصل ہے
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کا الیکشن کمیشن کی تشکیل پر سپریم کورٹ جانا بدقسمتی ہوگی۔
 
الیکشن کمیشن کی تشکیل پراپوزیشن کے سپریم کورٹ سے رجوع کے فیصلے پر فواد چوہدری نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا الیکشن کمیشن کی تشکیل کے معاملے میں سپریم کورٹ کو رجوع کرنا صریحاً بد قسمتی ہوگی۔
 
فواد چوہدری نے کہا کہ اگر سیاستدان اتنے ناپختہ ہیں کہ الیکشن کمیشن کیلئے ایک شخص پر اتفاق نہیں کر سکتے تو وہ ملک کے بڑے مسائل پر کیا اتفاق رائے پیدا کریں گے، فریقین اپنی پوزیشن میں نرمی لائیں اور فیصلہ کریں۔
 
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے الیکشن کمیشن کو جلد از جلد فعال بنانے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ن لیگ کا کہنا ہے کہ عمران خان فارن فنڈنگ کیس کے باعث الیکشن کمیشن کو دانستہ طور پر غیر فعال رکھنا چاہتے ہیں، اس لئے الیکشن کمیشن کو جلد از جلد فعال بنانے کے لیے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کریں گے۔

  اسلام آباد:سپریم کورٹ نے آشیانہ اقبال کیس میں امتیاز حیدرکی درخواست ضمانت منظورکرلی۔

زرائع کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے سابق چیف ایگزیٹو آفیسرامتیازحیدرکی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

 سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاثردیا گیا سپریم کورٹ نے نیب قانون میں سختی کردی ہے، کہا گیا کسی کو نقصان یا فائدہ پہنچانے کیلئے عدالت نے قانون سخت کیا، عدالت نے سختی نہیں کی صرف قانونی پوزیشن واضح کی تھی۔ حکومت کونیب قانون تبدیل کرنے کا کہا تھا لیکن حکومت نے کچھ نہیں کیا۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ اگراس معاملے کوہم تفصیل سے سنیں گے توہم مکمل انصاف کریں گے، ہوسکتا ہے ہم اس پورے کیس کو ختم کردیں، ایک سال 8 ماہ کا وقت بہت طویل وقت ہے، قانون میں 30 دن کا وقت دیا گیا ہے، امتیازحیدرکا کوئی کردارنہیں بنتا، امتیاز حیدرکے اپنے کردارکودیکھنا ہے۔

سپریم کورٹ نے امتیازحیدر کی درخواست ضمانت منظورکرلی جب کہ ملزم کا پاسپورٹ جمع کرانے کی نیب کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ملزم  کو دس، دس لاکھ کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد:  حکومت نے آرمی چیف کی توسیع سے متعلق قانون سازی کے معاملے پر 3رکنی کمیٹی بنادی ہے۔

ذرائع کے حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق قانون سازی کے لیے 3 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔ کمیٹی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر پر مشتمل ہے۔ حکومتی کمیٹی آرمی چیف کی توسیع سے متعلق قانون سازی کے لئے اپوزیشن سے مذاکرات کرے گی۔

پس منظر

سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹی فکیشن سے متعلق درخواست پر اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے 6 ماہ میں آرٹیکل 243 کی وسعت کا تعین کیا جائے۔

عدالت نے اپنے حکم میں قرار دیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ 6 ماہ تک بطور آرمی چیف اپنی خدمات جاری رکھیں گے، ان کی موجودہ تقرری پارلیمنٹ کی قانون سازی سےمشروط ہوگی۔

 
 

اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق نوٹی فکیشن کو چیلنج کرنے والے ریاض حنیف راہی سپریم کورٹ میں مسلسل تیسرے روز بھی مرکز نگاہ اور زیر بحث رہے۔

جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار ریاض حنیف راہی میڈیا کے نمائندوں اور وکلا کی مرکز نگاہ رہے۔

 میڈیا سے بات کرتے ہوئے ریاض حنیف نے کہا کہ میری درخواست پر آج بھی سماعت ہورہی ہے، پہلی بار سپریم کورٹ اس معاملے کو دیکھ  رہی ہے، سپریم کورٹ نے معاملہ 184/3 کے تحت اٹھالیا ہے، اس لئے عدالت میں میرا ہونا ضروری نہیں۔
 
 گزشتہ روز سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس نے درخواست گزار کے بارے میں استفسار کیا کہ گمشدہ پٹیشنر کا کچھ پتا چلا وہ کدھر رہ گئے۔ اس پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی  پیش ہوئے اور کہا کہ اور حالات پیدا ہو گئے ہیں مگر چیف جسٹس نے کہا آپ تشریف رکھیں انہیں حالات میں ہم آگے بڑھیں گے۔

ایک موقع پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی نے روسٹرم پر آ کر پھر کہا کہ وہ درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان کی استدعا پھر سے مسترد کر دی۔ درخواست گزار کو بھی چیف جسٹس نے مزاقاً کہا کہ اٹارنی جنرل کے بیان کے مطابق تو آپ کو بھی آرمی چیف لگایا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ ریاض حنیف راہی ماضی قریب میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری کے خلاف درخواست دائر کرنے سمیت  کئی اہم معاملات پر عدالت سے رجوع کرچکے ہیں۔

اسلام آباد:  سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔

میڈیا ذرائع کے مطابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت شروع کردی۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور اور بیرسٹر فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوگئے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے جنرل کیانی کی توسیع اورجنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگ لیں اورریمارکس دیئے کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں ان دستاویزات میں کیا لکھا ہے، سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، سوال یہ بھی ہے اگرجنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں، جائزہ لیں گے جنرل کیانی کی توسیع کن بنیادوں پرہوئی تھی، 15 منٹ تک جنرل کیانی کی توسیع کی دستاویزات پیش کردیں۔

سابق آرمی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع اور جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا کہ جنرل کیانی کو توسیع کس نے دی تھی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔

 

Page 2 of 28