جمعہ, 17 مئی 2024
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے موبائل کمپنیز کو موبائل فون کے بیلنس کارڈ پر اضافی ٹیکس وصولی سے روک دیا۔
 
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے موبائل فون کے کارڈ پر آپریشنل اور سروسز فیس کو فی الحال ختم کردیا گیا ہے۔
 
آپریشنل اور سروسز فیس روکے جانے کے بعد موبائل فون صارفین کے 100 روپے کا کارڈ لوڈ کرنے پر 12 روپے 9 پیسے کی کٹوتی نہیں ہوگی اور اس طرح صارفین 100روپے کے لوڈ پراب 88 روپے 89 پیسے کا بیلنس حاصل کریں گے۔
 
واضح رہےکہ اس سے قبل بھی سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے دور میں سپریم کورٹ نے موبائل فون کے کارڈ پر حکومت کو ٹیکس کی وصولی سے روک دیا تھا تاہم چند ماہ بعد ہی عدالت نے اس حکم کو معطل کردیا تھا۔
اسلام آباد: اسلامی نظریاتی کونسل نے تطہیر فاطمہ کیس میں والد کا نام ہٹا کر ’بنت پاکستان‘ لکھوانا شرعی طور پر غلط قرار دے دیا ہے۔
 
گزشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز کی سربراہی میں تطہیر فاطمہ کیس پر غور کیا گیا جس کے بعد کونسل نے اپنا فیصلہ وزارت قانون کو ارسال کردیا۔
 
اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کے مطابق والدین کے بارے میں علم ہونے کے باوجود ان کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرنا جائز نہیں جب کہ دستاویزات پر والد کا نام ہٹا کر 'بنت پاکستان' لکھوانا شرعاً درست نہیں ہے۔
 
اسلامی نظریاتی کونسل کے وزارت قانون کو ارسال کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی کوششوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے
 
واضح رہے کہ 22 سالہ پاکستانی لڑکی تطہیر فاطمہ نے گزشتہ برس اپنے پیدائشی سرٹیفکیٹ اور دیگر دستاویزات میں سے اپنے والد کا نام ہٹانے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ جس شخص نے کبھی اسے دیکھا نہیں اور نہ کفالت کی، وہ والد کیسے کہلا سکتا ہے؟
 
تطہیر فاطمہ نے اپیل کی تھی کہ ان کا سرکاری دستاویزات میں حقیقی والد شاہد ایوب کا نام ہٹا کر اس کی جگہ بنت پاکستان لکھا جائے۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ جاری کردیا۔

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنادیا ہے۔ 43 صفحات پر مشتمل فیصلہ سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا جس میں انہوں نے قائداعظم کے تین فرمان کا بھی تذکرہ کیا۔ قائد اعظم نے کہا کہ میں مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں کہ اپنے غصے پر قابو رکھیں، رد عمل سے ریاست کو خطرات میں نہیں ڈالنا چاہیے، پاکستان میں قانون کی عملداری ضروری ہے ورنہ لا قانونیت ملک کی بنیادیں ہلا دے گی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں 12 مئی واقعے، 2014 میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے دھرنے اور فیض آباد دھرنا تینوں واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ 12 مئی 2007 کے ذمہ داران کو کوئی سزا نہیں دی گئی اس عمل سے تحریک لبیک کو شہ ملی۔

فیصلے میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو نفرت، انتہا پسندی، دہشت گردی پھیلانے والوں کی نگرانی کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ 12 مئی 2007 کے واقعہ نے تشدد کو ہوا دی، اس دن کراچی میں قتل عام کے ذمہ دار اعلی حکومتی شخصیات تھیں، سڑکیں بلاک کرنے والے مظاہرین کے خلاف قانون کے تحت کارروائی ضروری ہے۔

فیصلے کے مطابق سیاسی جماعت بنانا اوراحتجاج آئینی حق ہے، مگر احتجاج کے حق سے دوسرے کے بنیادی حقوق متاثرنہیں ہونے چاہیے، ہرسیاسی جماعت فنڈنگ کے ذرائع بتانے کی پابند ہے اور الیکشن کمیشن قانون کے خلاف ورزی کرنے والی سیاسی جماعت کے خلاف کارروائی کرے، آئین میں احتجاج کا حق نہیں بلکہ جمہوریت میں احتجاج کا حق ہے۔

فیصلہ  میں کہا گیا کہ تمام حساس ادارے اپنی حدود سے تجاوزنہ کریں اور ان کی حدود طے کرنے کے لئے قانون سازی کی جائے،  آئین پاک فوج کو سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے روکتا ہے اور فوج کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کی حمایت نہیں کر سکتی، وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق فیض آباد دھرنے کے دوران ریاست شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے میں مکمل ناکام رہی، اداروں کے درمیان تعاون کا فقدان تھا، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں تھی، وفاقی یا صوبائی حکومت کے خلاف نفرت انگیزی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے جس کی سزا عمر قید ہے، کسی کے خلاف فتوی دینے والوں کا ٹرائل انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ہونا چاہیے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک لبیک نے قانون کی زبان میں غلطی درست کرنے کے باوجود دھرنا جاری رکھا جس سے جڑواں شہر مفلوج ہو گئے اور سپریم کورٹ سمیت تمام سرکاری، غیرسرکاری اداروں کا کام متاثر ہوا، ختم نبوت ﷺ کے معاملے پر تصحیح کے باوجود تحریک لبیک نے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا اور دھرنا قائدین نے دھمکیوں اور گالیوں کے ساتھ نفرت پھیلائی، 16 کروڑ 39 لاکھ 52 ہزار کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور ملک میں معاشی سرگرمیوں کو روک دیا گیا، قانون شکنی پر سزا نہیں ہوگی تو قانون شکنوں کا حوصلہ بڑھے گا۔

فیصلہ میں کہا کیا کہ از خود نوٹس اختیار شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، سپریم کورٹ از خود نوٹس اختیارات کے تحت اس قسم کے معاملات میں عوامی مفاد میں دخل دے سکتی ہے۔

فیصلے کے کاپی حکومت پاکستان، سیکرٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ کو آئی ایس آئی ،آئی بی اور فوج کے سربراہ کو بجھوانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ کی منظوری کے دوران ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی پرتحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ نے فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیا تھا، دھرنے کے خاتمے کے لئے عدالت نے حکم بھی جاری کیا تھا تاہم طاقت کے استعمال پرکئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا تھا اورملک بھرمیں دھرنے دیئے گئے۔

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے توہین رسالت کیس میں آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف نظر ثانی اپیل سماعت کیلئے مقرر کردی۔

آسیہ کی رہائی کے عدالتی فیصلے پر نظرثانی اپیل کی سماعت 29 جنوری کو ہوگی۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔ ان کے ساتھ بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہرعالم میاں خیل شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سال 31 اکتوبر کو توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی آسیہ بی بی کو شک کا فائدہ دے کر بری کردیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ گواہوں کے بیانات میں تضادات ہیں۔ مدعی قاری محمد سالم نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل دائر کی جو سماعت کے لئے مقرر کردی گئی ہے۔

آسیہ مسیح پر الزام تھا کہ اس نے جون 2009 میں ایک خاتون سے جھگڑے کے دوران حضرت محمد ﷺ کی شان میں توہین آمیز جملے استعمال کیے تھے۔

آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزام میں 2010 میں لاہور کی ماتحت عدالت نے سزائے موت سنائی۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی اس کی سزائے موت کے خلاف اپیل خارج کر دی تھی جس کے بعد ملزمہ نے عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی تھی۔

 

اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اسکول فیسوں میں کمی کے تفصیلی حکم نامے میں کہا ہے کہ بیس فیصدکمی کے حکم کااطلاق ملک بھر کے تمام اسکولوں پر ہوگا اور بیس فیصد کمی کا اطلاق پانچ ہزار سےزائد فیس لینے والے ہر اسکول پرہوگا، طلبہ اوروالدین کم فیس جمع کرائیں جوکم فیس جمع نہیں کرائیں گے ان کےخلاف ایکشن لیا جائےگا۔

تفصیلات کے مطابق اسکول فیسز میں کمی پر سپریم کورٹ نےتفصیلی فیصلہ جاری کردیا، جس میں کہاگیا ہےکہ فیسزمیں بیس فیصد کمی کےحکم کااطلاق ملک بھرمیں ہوگا اور بیس فیصد کمی کا اطلاق پانچ ہزار سے زائد فیس لینے والے ہر اسکول پرہوگا۔

حکم نامے میں یہ واضح کہا گیا ہے کہ پانچ ہزار سےکم فیس بیس فیصد کمی سے مستثنیٰ ہے۔ سپریم کورٹ نے حکم دیاہےکہ طلبہ اور والدین کم فیس جمع کرائیں، جو کم فیس جمع نہیں کرائیں گے ان کےخلاف ڈسپلنری ایکشن لیاجائےگا،والدین اسکول کی فیس مقررہ وقت تک اداکریں۔

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے 18 ویں ترمیم کے تحت شیخ زید اسپتال کی منتقلی کا معاملہ نمٹا دیا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے شیخ زید اسپتال کی منتقلی سے متعلق فیصلہ جاری کردیا۔

عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ شیخ زید اسپتال کسی قانونی اقدام کے بغیر صوبے کے حوالے کیا گیا، اسپتال کی منتقلی کے لیے مطلوبہ قانونی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ معاملے میں 18 ویں ترمیم کی غلط تشریح کی گئی، وفاقی حکومت اسپتال بنانے اور چلانے کا اختیار رکھتی ہے، حق زندگی کا معاملہ ہے جو کسی کا بھی بنیادی حق ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے3 اسپتال اورمیوزیم غیرقانونی طور پرصوبائی حکومتوں کے حوالے کیے گئے، اسپتالوں اور میوزیم کا انتظام 90 دن میں وفاقی حکومت کومنتقل کیا جائے۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق اگر 90 دن میں منتقلی نہ ہوسکے توصوبہ وقت میں توسیع کی درخواست دے سکتا ہے، وفاق متعلقہ اسپتالوں کے گزشتہ ایک سال کے اخراجات صوبوں کوادا کرے۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ کوئی بھی قانون اس اسپتال کی وفاق کی واپس منتقلی سے نہیں روک سکتا، وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے اختیارات میں توازن ہونا چاہیے۔

فیصلے کے مطابق مجوزہ ترمیم شدہ آرڈر وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد صدر مملکت کو بھجوایا جائے، مجوزہ آرڈرمیں آرٹیکل 124 کے طریقہ کارکے بغیرکوئی ترمیم نہیں ہوگی، نہ ہی اسے ختم کیا جاسکے گا اور نہ ہی تبدیل کیا جا سکے گا۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق مجوزہ آرڈر میں سپریم کورٹ کے دائرہ سماعت کومحدود نہیں کیا جاسکتا، آرڈر میں پارلیمنٹ کے ذریعے ترمیم یا تبدیلی ہوتی ہے توعدالت عظمیٰ پرکھ سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے 18 ویں ترمیم کے تحت اسپتال کی منتقلی کا معاملہ نمٹاتے ہوئے شیخ زید اسپتال وفاقی حکومت کے حوالے کردیا۔

 

 

سندھ ہائی کورٹ کا اسکول فیسوں میں 5 فیصد سے زائد اضافے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کے دوران کہنا ہے کہ اسکول معاملات کو اتناطول نہ دیں۔

اسکول فیسوں میں 5فیصد سے زائد اضافے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست کی سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔

عدالت عالیہ نے استفسار کیا کہ کیا ہائی کورٹ کے فیصلے پر سپریم کورٹ میں حکم امتناع ہوا ہے؟

نجی اسکولوں کے وکیل نے کہا کہ ہم نے عدالتی حکم پر فیسوں میں 20 فی صد کمی کر دی ہے۔

والدین کے وکیل نے کہا کہ اسکولز کی جانب سے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی گئی، ابھی تک سپریم کورٹ کی جانب سے تحریری حکم نہیں آیا، سپریم کورٹ نے کسی فیصلے پر کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا۔

عدالت نے نجی اسکول کے وکیل کو خبردار کیا کہ بار بار نہ بتائیں کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔

جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کا حکم معطل نہیں کیا، توہین عدالت کی درخواست پر حکم امتناع ہوا ہے تو بتائیں؟ نجی اسکول معاملات کو اتنا طول نہ دیں۔

انہوں نے کہا کہ بتائیں توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوئی ہےیا نہیں؟

نجی اسکول کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ جن اسکولوں کی فیس 5ہزار روپے ہے ان پر کٹوتی لاگو نہیں ہو گی، کچھ والدین 8 سے 10 ماہ سے فیس ادا نہیں کر رہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ لگتا ہے کہ اسکول والوں کی طرف سے پڑھائیاں چل رہی ہیں، اسکولز کی جانب سے عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کی گئی۔

 

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا۔ یاد رہے کہ آرمی پبلک اسکول پر 16دسمبرکو دہشت گردوں نے حملہ کرکے 150 سے زائد افراد کو موت کی نیند سولا دیا تھا، جن میں زیادہ تر معصوم بچے تھے۔ ایک سال پہلے چیف جسٹس نے دورہ پشاور کے دوران اے پی ایس سانحے کے لواحقین سے ملاقات کے دوران واقعے کا نوٹس لیا تھا اور 5 اکتوبر 2018 کو کیس کی سماعت کے دوران ہائیکورٹ کے سینیئر جج کی سربراہی میں کیس کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کیا تھا، جس کو 6 ہفتوں میں اپنی رپورٹ عدالت اعلی میں جمع کروانی تھی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے آج ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'ہم نے کمیشن بنایا تھا، کیا اس نے رپورٹ جمع کرادی ہے؟' جس پر خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے سپریم کوٹ کو بتایا کہ 147 شہادتیں قلمبند ہوچکی ہیں جبکہ 109 شہادتیں ابھی باقی رہ گئی ہیں۔ خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے مزید کہا کہ جب تک یہ شہادتیں مکمل نہیں ہوتیں رپورٹ جمع نہیں کرواسکتے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'ٹھیک ہے ہم اس معاملے کو نمٹا دیتے ہیں، جب رپورٹ مکمل ہوجائے تو جمع کرائی جائے'۔ اسی ریمارکس کے ساتھ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ نمٹا دیا۔

 

 

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وفاق اور صوبائی حکومتوں کو آسیہ بی بی کی رہائی پر ہنگاموں سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے متاثرین کو ایک ماہ میں ادائیگیاں کرنے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں آسیہ بی بی کی رہائی پر ہنگاموں سے ہونے والے نقصان کے ازالے کے لیے از خود نوٹس کی سماعت کی۔
ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ہنگاموں کے دوران نقصانات کا تخمینہ 262 ملین لگایا گیا ہے۔ کابینہ نے اس تخمینے کی منظوری دے دی ہے۔جسٹس اعجازِ الاحسن نے استفسار کیا کہ ادائیگی کے لیے کوئی پلان بھی مرتب کیا ہے یا سب کاغذی کارروائی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈھائی ماہ گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک ادائیگی کا مکمل پلان نہیں دیا گیا۔ اگر عدالت حکم نہ دیتی تو یہ پلان بھی نہ آتا، رپورٹیں تو دے دی گئی ہیں بتایا جائے ادائیگیاں کب اور کیسے ہوں گی۔

 

 

اسلام آباد :۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریلوے خسارہ کیس کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت کو بتایا کہ چیف جسٹس آڈیٹر جنرل نے لاہور میں جواب جمع کروا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے خواجہ سعد رفیق کے عدالت میں پیش ہونے پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو آڈیٹر جنرل سے جواب طلب کیا تھا ہمخواجہ سعد رفیق کو نہیں بلاتے تو وہ عدالت کیوں آتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہا اگلے ہفتے آڈیٹر جنرل کا جواب آجائے تو پھر کیس سنیں گے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے بعد سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک چلانے کے بجائے اپوزیشن بھگانے کے چکر میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پکڑ پہلے لیا گیا ہے اور اب ثبوت بعد میں ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ ثبوت بھی اب ڈھونڈے نہیں بلکہ گھڑے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں روایت ہے کہ ملک بنانے والوں کی اولاد کو جیل جانا پڑا، اگر آپ بھی پاکستان سے پیار یا جمہوریت کی بات کریں گے تو آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا، انہوں نے مزید کہاکہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو چور چور کہنے کے بجائے اصل ایشوز پر بات کرنا ہوگی۔

 

Page 4 of 28