جمعہ, 17 مئی 2024
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے۔
 
اٹارنی جنرل نے جنرل قمر باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ نوٹیفکیشن میں کہیں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت کا ذکر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کو توسیع کی ضرورت ہی نہیں، نوٹیفکیشن کے مطابق وہ ہمیشہ آرمی چیف رہیں گے، کیا جنرل باجوہ کو آگاہ کیا گیا کہ انہیں کتنے سال کے لیے تعینات کیا گیا۔
 
چیف جسٹس نے فروغ نسیم کو روسٹر پر بلاکر پوچھا کہ کیا آرمی چیف کل ریٹائر ہو رہے ہیں؟۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرمی چیف کل نہیں پرسوں رات 12 بجے ریٹائر ہونگے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں وہ ریٹائر ہو رہے لیکن اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا۔
 
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا وہ 3 سال بعد خود ہی گھر چلا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آپ نے جو دستاویزات جمع کرائیں ان کے ساتھ آرمی چیف کا اپائنٹمنٹ لیٹر ہے، جنرل قمر باجوہ کی بطورآرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے، کیا پہلی بارجنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لئے تھی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی طے کرنے کا اختیار کس کو ہے۔
 
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔
 
چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ ریاض حنیف راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے، کل آپ تشریف نہیں لائے ،ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی۔ ریاض حنیف راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں،آپ تشریف رکھیں
 
اٹارنی جنرل انورمنصور بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہم نے کل چند سوالات اٹھائے تھے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں کچھ وضاحت پیش کرنا چاہتا ہوں، کل کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی، کابینہ سے متعلق نقطہ اہم ہےاس لیے اس پربات کروں گا، رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے، حکومت نے کہیں بھی نہیں کہا کہ ان سے غلطی ہوئی۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ کے ارکان کے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے، رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے، اگرکابینہ سرکولیشن میں وقت مقررنہیں تھا تواس نقطے کوچھوڑدیں، اگر حالات پہلے جیسے ہیں تو قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں۔
 
اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدرمملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں جو وزیراعظم کی سفارش پرافواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ازسرنواورتوسیع کے حوالے سے قانون دکھائیں جس پرعمل کیا۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے،کیا تعیناتی کی مدت کابھی ذکر ہے اور کیا ریٹائرڈ جنرل کوآرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟۔
 
اٹارنی جنرل نے کہا کہ شاید ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں، جبکہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے اور آرمی ریگولیشن آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے ہیں
 
چیف جسٹس نے کہا کہ انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس میں آئین خاموش ہے، 5،7 جنرل دس دس سال تک توسیع لیتے رہے، کسی نے پوچھا تک نہیں، آج یہ سوال سامنے آیا ہے،اس معاملے کو دیکھیں گےتاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے، تاثر دیا گیا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔
 
جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو صفحات آپ نے دیئے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں۔
 
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں۔
 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دستاویزات کے ساتھ آرمی چیف کا اپائنٹمنٹ لیٹر ہے، جنرل قمر باجوہ کی بطورآرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے، کیا پہلی بارجنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لئے تھی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی طے کرنے کا اختیار کس کو ہے۔
 
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پرقانون خاموش ہے اور آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو 2 بار معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ تعیناتی میں توسیع بھی شامل ہوتی ہے۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ ریٹائرمنٹ 2 اقسام کی ہوتی ہے، ایک مدت ملازمت پوری ہونے پراوردوسری وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ، ہمیں بتائیں آرمی چیف ریٹائرکیسے ہوگا، نارمل ریٹائرمنٹ توعمر پوری ہونے پرہوجاتی ہے، آرمی ریگولیشن کی شق 255 کوریٹائرمنٹ کے معاملے کےساتھ پڑھیں تو صورتحال واضح ہوسکتی ہے۔
 
سابق فروغ نسیم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جنگی صورتحال میں کوئی ریٹائرہورہا ہو تو اسے کہتے ہیں آپ ٹہرجائیں۔
 
چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے اگر جنگ لگی ہو تو چیف آف آرمی اسٹاف کسی کی ریٹائرمنٹ کوروک سکتا ہے، یہاں تو آپ چیف کو ہی سروس میں برقراررکھ رہے ہیں، قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں، لیکن حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے، آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے اور ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی نہیں ہوتی۔
 
ایک موقع پر دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا جس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے۔ اس پرعدالت میں قہقے گونج اٹھے
 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا 3 سالہ مدت کے بعد آرمی چیف فوج میں رہتا ہے یا گھر چلاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی افسران سروس کی مدت اور مقررہ عمر کو پہنچنے پرریٹائر ہوتے ہیں، قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تو رات تک دلائل دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔
 
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آئینی عہدے پرتوسیع آئین کے تحت نہیں،عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی، بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔
 
سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت میں دن ایک بجے تک وقفہ ہوگیا۔
 
واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کرتے ہوئے اسے عوامی اہمیت کا معاملہ قراردیتے ہوئے ازخود نوٹس لیا تھا۔

راولپنڈی: اعلیٰ عدلیہ کیلیے آئندہ ماہ بہت اہم ہے، سپریم کورٹ اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے چیف جسٹس صاحبان رٹائر ہوجائیں گے، دونوں اعلیٰ عدلیہ کی نئی سنیارٹی لسٹیں بھی جاری ہوںگی۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ 20 دسمبر کو رٹائر ہوجائیں گے، ان کی جگہ سینئر ترین جج جسٹس گلزار احمد21 دسمبر کو ایوان صدر میں حلف اٹھائیں گے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سردار شمیم31 دسمبر کو رٹائر ہوں گے اور یکم جنوری 2020 کو سینئر ترین جج جسٹس مامون الرشید شیخ گورنر ہاؤس لاہور میں حلف اٹھائیں گے، ان کے ساتھ دوسرے جج جسٹس شاہد مبین بھی31 دسمبر کو ہی رٹائر ہوںگے ان دونوں کی رٹائرمنٹ سے لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی خالی سیٹوں کی تعداد بڑھ کر18ہوجائے گی۔

 اس وقت ہائیکورٹ میں16 سیٹیں خالی ہیں، لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی 60 منظور شدہ سیٹ ہیں جن میں سے اس وقت44 ججز فرائض انجام دے رہے ہیں، ہائیکورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی کا تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا، اب نئے ججز کی تعیناتی کا مرحلہ نئے چیف جسٹس کے آنے کے بعد ہوگا، لاہور ہائیکورٹ کے یکم جنوری کو بننے والے چیف جسٹس مامون الرشید شیخ بھی3 ماہ بعد 18 مارچ کو رٹائر ہوجائیں گے، ان کی جگہ اس وقت کے سینئر موسٹ جج جسٹس قاسم خان 19 مارچ 2020 کو حلف اٹھائیں گے۔
 

 لاہور ہائیکورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی کیلیے10سینئر موسٹ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کی ترقی ہوگی اور 8 براہ راست وکلا میں سے لیے جائیں گے، سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی رٹائرمنٹ کے بعد پنجاب سے سینئر ترین ججز جسٹس قاسم خان یا جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی میں سے ایک جج کو جنوری 2020 میں سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے ترقی دے دی جائے گی۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آر ملک پر بوجھ ہے اسے ختم کردیں۔

جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایف بی آر کی اپنے ملازم محمد انور گورایہ کی سروس کے حوالے سے اپیل کی سماعت کی۔

جسٹس گلزاراحمد نے ایف بی آر پراظہاربرہمی کرتے ہوئے کہا کہ کھربوں روپیہ ہر سال چلا جاتا ہے، ایف بی آر ملک پر بوجھ ہے، اس کو ختم کردیں، دیکھیں کتنا پیسہ جمع ہوتا ہے۔

جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ ایف بی آر کی 22 ہزار کی فوج کیا ریکوری کرے گی، 80 فیصد ٹیکس ان ڈائریکٹ جمع ہوتا ہے، صرف 20 فیصد ریونیو اکٹھا کرنے کے لیے 22 ہزار بندے ایف بی آر میں رکھے گئے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے الیکشن ٹریبونل کی جانب سے اپنے حلقہ انتخاب میں دوبارہ الیکشن کرانے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔
 
میڈیا کے مطابق قاسم سوری نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ نعیم بخاری کی وساطت سے دائر اپیل میں موقف اختیار کیا ہے کہ ٹریبونل نے شواہد کا مکمل جائزہ نہیں لیا، انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں ان سے منسوب نہیں ہو سکتیں، اس لئے الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور ان کی درخواست کی جلد از جلد سماعت کی جائے۔
 
واضح رہے کہ الیکشن ٹریبونل نے قاسم سوری کی کامیابی کانوٹی فکیشن کالعدم قرار دے کر دوبارہ الیکشن کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے متعلق کیس میں آئی جی سندھ کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔
 
تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے کی، دوران سماعت عدالت میں سندھ کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی۔
 
رپورٹ میں بتایا گیا کہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے حوالے سے کوئی رپورٹ نہیں،اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا سندھ حکومت کی اس رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتے، کراچی منشیات کی فروخت اور استعمال میں دنیا میں دسویں نمبر پر ہے، کیا آئی جی سندھ نے ان حقائق کو چیک کیا ہے، آئندہ سماعت پر آئی جی سندھ خود پیش ہوں ،سپریم کورٹ نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے لاہور سے بل بورڈ کو ہٹانے سے متعلق عدالتی حکم پر عملدرآمد رپورٹس بھی مسترد کردیں،بل بورڈز کی تنصیب سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربرائی میں تین رکنی بنچ نے کی، دوران سماعت ڈی ایچ اے ، کنٹونمنٹس بورڈز سمیت دیگر اداروں کی عمدرآمد رپورٹ پیش کی گئیں جس پر عدالت نے عدم اطمینان کا اظہار کر دیا۔
 
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا عدالت نے تو اس معاملے میں تمام نظرثانی درخواستیں بھی خارج کردیں ، وکیل لطیف کھوسہ نے کہا ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے ساتھ میٹنگ میں قوائد و ضوابط طے کیے گئے ہیں، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا طے یہ کرنا ہے کہ پبلک پراپرٹی کے علاوہ کون سی جگہیں ہیں۔
 
عدالت نے حکم دیا کہ بل بورڈز کی تنسیخ کے وقت درخت کی کٹائی اور ماحولیاتی آلودگی کے اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تمام اتھارٹیز لکھ کر رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائیں۔
 
 
 
 
اسلام آباد : معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے فسطائی مودی کے جھوٹ کاپول کھول دیا اور پاکستان کے مؤقف کی جیت ہوئی۔
 
معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا بھارتی عدالت نےفسطائی مودی کے جھوٹ کاپول کھول دیا، بھارتی سپریم کورٹ میں پاکستان کے مؤقف کی جیت ہوئی، بھارتی ظلم وجبرمظلوم کشمیریوں کے صبر کے آگے پسپا ہورہا ہے۔
 
 
 
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے نے مقبوضہ جموں کشمیر کی صورتحال پر فسطائی مودی کے جھوٹ کا پول کھول دیا ۔یہ فیصلہ پاکستان کے موقف کی جیت ہے۔ بھارتی ظلم و جبر مظلوم کشمیریوں کے صبر کے آگے پسپا ہورہا ہے۔
 
 
 
فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیرمیں انسانی حقوق کا تحفظ بھارتی عدلیہ کاامتحان ہے، دنیا دیکھ رہی ہے بھارتی سپریم کورٹ اپنے دعوے کے مطابق مودی سرکارکے دباؤ کا مقابلہ کیسے کرتی ہے۔
 
 
مقبوضہ کشمیر میں عالمی انسانی حقوق کا تحفظ بھارتی عدلیہ کی آزادی کا امتحان ہے۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ سپریم کورٹ اپنے دعوے کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اور مودی سرکارکے دباؤ کا مقابلہ کیسے کرتی ہے؟
 
 
خیال رہے گذشتہ روز بھارتی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے چیف جسٹس رنجن گگوئی کی سربراہی میں مقبوضہ کشمیر سے آرٹیکل 370 ختم کرنے سے متعلق مقدمے کی سماعت ہوئی ، جس میں عدالت نے مودی حکومت کو مقبوضہ وادی میں حالات ہر صورت معمول پر لانے کا حکم صادر کیا تھا۔
 
 
واضح رہے مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے معمول کی زندگی مفلوج کررکھی ہے، مقبوضہ وادی میں نافذ کرفیو اور کڑی پابندیوں کو آج چوالیس روز ہوگئے ہیں جبکہ بھارتی فوج نے سری نگر سمیت مختلف علاقوں میں بلٹ پروف بنکرز تعمیر کرلئے ہیں۔
 
 
 
 
 
 
کراچی: نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں اضافے کے بعد والدین پریشان ہیں، کراچی کے عوام کہتے ہیں کہ اسکول مافیا بن گئے ہیں، فیسوں میں ہوشربا اضافے سے تنخواہ دار طبقہ بری طرح پریشان ہے، سپریم کورٹ نے فیسوں میں اضافے کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ۔
 
نجی اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں من مانے اضافے نے والدین کو پریشان کردیا، کراچی کے عوام نے کہا کہ تعلیم کو بزنس بنالیا گیا ہے، اسکول مافیا بن گئے ہیں، اسکول فیسوں میں کمی کے فیصلے پر عملدرآمد کروایا جائے جبکہ سپریم کورٹ نے 2017 کے بعد فیسوں میں ہونے والے اضافے کو کالعدم قرار دے دیا۔
 
والدین کا کہنا ہے کہ فیسوں میں ہوشربا اضافے سے تنخواہ دار طبقہ پریشان ہے، اگر ایک گھر کے تین بچے زیر تعلیم ہوں تو کیسے گزارا ہوگا۔
 
دوسری جانب سپریم کورٹ نے نجی اسکول کی فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے فیسوں میں 2017 کے بعد ہونے والے اضافے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
 
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نجی اسکولوں ںے 2017 سے خلاف قانون فیس میں بہت زیادہ اضافہ کیا، اسکول کی فیس کے دوبارہ تعین کی نگرانی متعلقہ ریگولیٹری اتھارٹی کرے گی اور اتھارٹی کی منظور شدہ فیس ہی والدین سے وصول کی جائے گی۔
 
سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کی فیسوں کو جنوری 2017 تک منجمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نجی اسکولوں کی فیس وہی ہوگی جو جنوری 2017 میں تھی اور فیسوں میں کی گئی 20 فیصد کمی والدین سے وصول نہیں کی جائے گی۔
 
سپریم کورٹ کے مطابق والدین سے لی گئی اضافی فیس آئندہ فیس میں ایڈجسٹ کی جائے جبکہ ریگولیٹری حکام اسکولوں کی جانب سے وصول کی جانے والی فیس کی نگرانی کریں۔
 
نجی اسکول انتظامیہ کو حکم دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ نجی اسکول قانون کے مطابق اپنی فیسوں کا دوبارہ تعین کریں اس کے علاوہ اسکول فیس کے حوالے سے شکایات کے ازالے کے لیے شکایتی سیل قائم کیا جائے۔
 
 
 
 
 
 
اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ اندرون سندھ اور کراچی کو تباہ کر دیا گیا ہے، 11 سال میں کراچی میں جو پیسے لگنے تھے بتایا جائے وہ کہاں گئے۔
 
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کراچی کے لیے آرٹیکل 149 فور اور 140 اے کے قانونی و آئینی تقاضے پر ابہام دورکردیا۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تو آرٹیکل 149 فور بتائی ہے اس کا دوسرا حصہ سامنے نہیں لا رہا۔ اس کو آگے کیسے لے کر چلنا ہے وہ بھی میرے ذہن میں ہے۔
 
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اسٹریٹجک کمیٹی، وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ کے سامنے اپنی تجاویز رکھے گی، وفاقی کابینہ اجازت دے گی تو پھر ایگزیکٹو آرڈر صوبائی حکومت کو جائے گا۔ صوبائی حکومت نہ مانی تو آرٹیکل 184 ون کے تحت سپریم کورٹ جائیں گے۔
 
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ صوبائی اور وفاقی حکومت کے تنازعات پر فیصلہ کر سکتا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ آرٹیکل کے تحت وفاق کے حق میں آجاتا ہے تو صوبائی حکومت کو ماننا ہوگا، صوبائی حکومت نے فیصلہ نہ مانا تو عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کا کیس بنے گا۔
 
فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے وکلا بڑے قابل ہیں، آئینی شقوں کا توڑ نکالیں ہمیں اچھا لگے گا۔ اختیارات منتقل نہیں کیے گئے اور بلدیاتی نظام کو ناکام کیا گیا۔ کراچی کے مسائل کا حل 18 ویں ترمیم کے بعد واحد اور آسان ہے۔ سندھ میں جو حالات ہیں ضروری ہے وفاق ایگزیکٹو آرڈر جاری کرے۔ عام آدمی نہیں سمجھتا اختیارات کی کیا جنگ ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ گاربیج سسٹم، ویسٹ ڈسپوزل اور ماس ٹرانزٹ کا سسٹم بنانا ہوگا، عمران خان نے اس ایشو کو ٹیک اپ کیا اور کمیٹی بنائی ہے۔ وفاقی حکومت کراچی کے مسائل کا دیرپا حل چاہتی ہے۔ اختیار پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ پیپلز پارٹی 140 اے کے تحت اختیار لوکل گورنمنٹ کو نہیں دے رہی۔
 
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ مجھے بتایا جائے کہ کیا کراچی کے عوام یہاں کےحالات سے خوش ہیں؟ ورلڈ بینک کی رپورٹ ہے 11 سال میں کراچی کے ساتھ کیا ہوا۔ کراچی کو ریسکیو کرنے کے لیے 11 بلین ڈالرز کی ضرورت ہے۔ 11 سال میں کراچی میں جو پیسے لگنے تھے بتایا جائے وہ کہاں گئے۔
 
انہوں نے کہا کہ اندرون سندھ کا حال دیکھ لیں، کراچی کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کسی بھی صوبائی حکومت کو ایگزیکٹو آرڈر جاری کرسکتی ہے۔

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی نااہلی کے لیے دائر نظرثانی درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی ہے۔  

جسٹس عظمت سعید کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی نااہلی سے متعلق دائر نظرثانی درخواست کی سماعت کی، اس موقع پر وکیل درخواست گزار حامد خان نے کہا کہ مراد علی شاہ کو دہری شہریت پر سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا، مراد علی شاہ کی نااہلی کا فیصلہ حتمی ہوُچکا ہے جس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے لیے عدالتی ڈیکلریشن چاہیے۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی ڈیکلریشن ہے، ہر امیدوار اپنی اہلیت کا بیان حلفی ریٹرننگ افسر کو جمع کراتا ہے جب کہ جھوٹا بیان حلفی دینے پرآرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوتا ہے، وکیل درخواست گزار حامد خان نے کہا کہ مراد علی شاہ نے الیکشن 2013 میں جھوٹا بیان حلفی دیا، مراد علی شاہ نے کینیڈین شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ جمع نہیں کرایا تھا۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد روشن علی ابڑو کی درخواست پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو دہری شہرہت کے معاملے پر نوٹس جاری کردیا، عدالت نے فیصلہ 2 ایک کی اکثریت کی بنیاد پر کیا، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کثرت رائے سے مراد علی شاہ کو نوٹس جاری کیا جب کہ جسٹس عمر عطاء بندیال نے نوٹس جاری کرنے سے اختلاف کیا۔
Page 3 of 28