ایمز ٹی وی (لاہور) لاہور میں متحدہ محاذ اساتذہ 2گروپوں میں تقسیم ہوگئے اور تصادم کے بعد دھرنا ختم ہوگیا ہے۔ اس سے قبل متحدہ اساتذہ محاذ کا دھرنا گزشتہ 3روز سے جاری تھا کہ 1گروپ نے حکومت سے مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا، جس پر مظاہرین 2گروپوں میں تقسیم ہوگئے اور ان میں ہاتھا پائی ہوگئی، جس کے بعد مذاکرات کا حامی گروپ دھرنا چھوڑ کر چلا گیا ہے۔
رات گئے دھرنے پر قائم رہنے والے دوسرے گروپ نے بھی حکومت کو 2دن کی مہلت دیتے ہوئے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ متحدہ استاد محاذ کا موقف تھا کہ اگر حکومت نے 2دن میں ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے تو وہ دوبارہ دھرنا دیں گے۔
ایمز ٹی وی (ہیتلھ ڈیسک) ایک تحقیق کے مطابق باز گشت کو سن کر چیزوں کو تلاش کرنا نابینا اور بینا دونوں طرح کے افراد کے لیے بہت اہم کام ہے۔ برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ہمپٹن کی تحقیق کے مطابق یہ بالکل ویسی ہی مہارت ہے جس کا استعمال ڈالفن اور چمگادڑ کرتے ہیں اور اس کے لیے دونوں کانوں سے اچھی طرح سننے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کو تجربات سے معلوم ہوا کہ جو افراد ایک کان سے سننے کی قوت کھو چکے تھے، انھیں ٹیسٹ کے دوران چیزیں ڈھونڈنے میں مشکل پیش آئی۔ تحقیق کے مطابق ماہرِ سمعیات کو اس حقیقت کا علم ہونا چاہیے کہ جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے لوگوں کی قوتِ سماعت گھٹتی جاتی ہے۔ اس تحقیق کے دوران نابینا اور بینا افراد کے ساتھ بہت سے تجربات کیے گئے جن میں ان سے چیزوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ وہ ان کے دائیں طرف ہے یا بائیں جانب ہے۔ آوازوں کو مختلف طریقوں سے وقفوں میں بدلا جاتا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ چیزیں وقفوں کے دوران مختلف مقامات پر ہیں۔ اس تجربے سے معلوم ہوا کے لوگ ان چیزوں کے مقام کا صحیح پتہ لگا سکتے ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب ان کی قوتِ سماعت ٹھیک ہو اور وہ دونوں کانوں سے سن سکتے ہوں۔ یونیورسٹی آف ساؤتھ ہمپٹن کے ڈاکٹر ڈینئل روون کا کہنا ہے کہ اس کا اثر صرف بوڑھے افراد پر ہوتا ہے جن کی قوتِ سماعت کم ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ تیز آوازوں کو دونوں کانوں سے نہیں سن پاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ قوتِ سماعت کھونے کی مخصوص اقسام میں گونجتی آوازوں میں چیزوں کو ڈھونڈنے کے عمل پر کیا اثر ہوتا ہے۔ ہمارے نتائج کے مطابق ایسے افراد کو مشکل ہوتی ہے۔‘ ڈاکٹر روون کا کہنا ہے کہ آلہ سماعت صرف گفتگو سننے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہماری تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان آلات کو گونجتی آوازوں کو سننے کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر ملک کے چند حصوں میں یہ آلات صرف ایک کان میں لگائے جاتے ہیں لیکن انھیں دونوں کانوں سے سننے کی ضرورت ہے۔‘
ایمز ٹی وی (ہیلتھ ڈیسک) ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایبولا وائرس سے بچ جانے والے شخص کی آنکھوں میں یہ جان لیوا وائرس کئی ماہ تک موجود ہوتا ہے۔
نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع تحقیق کے مطابق افریقی ملک سیرا لیون میں ایبولا کی روک تھام کے لئے کام کرنے والا ڈاکٹر جب خود اس وائرس سے متاثر ہوا تو اسے علاج کے لئے فوری طور امریکا بھیج دیا گیا جہاں 40 روز تک وہ زیر علاج رہا۔ اسپتال سے فارغ ہونے کے 2 ماہ بعد جب اس ڈاکٹر کی آنکھوں کا ٹیسٹ لیا گیا تو اس وقت بھی اس میں ایبولا وائرس کے اثرات پائے گئے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ایبولا وائرس سے نجات پانے والے شخص کی آنکھ سے نکلنے والے آنسوؤں اور آنکھ کی ڈھیلے سے جان لیوا وائرس کی تشخیص کےباوجود یہ وائرس خطرناک نہیں ہوتا لیکن اس کا تدارک ضروری ہے۔ دوسری جانب امریکا کی اموری یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے پروفیسر اسٹیون یہہ کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس سے بچ جانے والے افراد کو اس کے اثرات سے بچنے کے لئے مسلسل علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ ایبولا کے باعث گذشتہ ایک سال کے دوران 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں افریقی ملک سیرا لیون، گنی اور نائجر میں ہوئیں۔
ایمز ٹی وی (کراچی) کراچی میں پانی کے لالے پڑ گئے ، شہر قائد کی فیشن ایبل بستیوں اور مختلف علاقوں میں پانی کی قلت نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ، کراچی واٹر بورڈ نے متاثرہ علاقوں میں مفت واٹر ٹینکر سروس شروع کر دی ہے۔
ایک طرف بڑھتی ہوئی گرمی ، دوسری جانب پانی کا بحران ، شہر قائد میں ہر گزرتا دن پانی کے بحران میں اضافہ کر رہا ہے ۔ مختلف علاقوں سمیت شہر کی فیشن ایبل بستیوں میں بھی پانی کی دہائی مچی ہوئی ہے تاہم پانی کی فراہمی کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہو سکا ۔ شاہ فیصل کالونی، ملیر، لانڈھی، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، قصبہ کالونی، سائٹ ،نیو کراچی ڈیفنس اور شیریں جناح کالونی میں بحران سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے ۔ لوگ پانی کے لئے ترس رہے ہیں ، واٹر ٹینکر والوں کے نخرے اور من مانیوں کے باوجود صارفین مہنگے داموں پر پانی خریدنے پر مجبور ہیں ۔
ایمز ٹی وی (کراچی) سعادت حسن منٹو 11 مئی 1912ء کو بھارت کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ نقل مکانی کرکے لاہور شفٹ ہو گئے۔ ان کا شمار اردو کے ان نامور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن کی تحریریں آج بھی بڑے ذوق اور شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ ان کے افسانے محض واقعاتی نہیں تھے بلکہ ان میں موضوعاتی جدت پائی جاتی تھی اور دنیا بھر میں جہاں جہاں پر اردو بولی، سمجھی اور لکھی جاتی ہے وہاں وہاں پر ان افسانوں کی شکل میں سعادت حسن منٹو کے خیالات اور مشاہدات موجود ہیں۔
سعادت حسن منٹو نے اپنے کیریئر کا آغاز لدھیانہ کے ایک اخبار سے کیا اور مرتے دم تک قلم سے ہی رشتہ استوار رکھا۔ ان کی اہم ترین تصانیف میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، آتش پارے، کھول دو، دھواں اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے اپنی زندگی کا آخری حصہ لاہور میں ہی گزارا اور 18 جنوری 1955ء کو بیالیس برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔