بدھ, 27 نومبر 2024

ایمز ٹی وی (کراچی) اردو کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کو ہم سے بچھڑے 13 سال گزر گئے لیکن ان کے لکھے گئے سریلے گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔

 

فلمی دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار اختر حسین رضوی عرف کیفی اعظمی اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے اور پہلی نظم 11 سال کی عمر میں تحریر کی۔1940 کے اوائل میں کیفی اعظمی بمبئی آ گئے اور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگئے اور یہیں ان کی شعری کا پہلا مجموعہ ’جھنکار‘ شائع ہوا۔مختلف صلاحیتوں کے مالک کیفی اعظمی نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے لکھے، فلم کاغذ کے پھول میں ان کے گانے ’وقت نے کیا ،کیا حسیں ستم‘ کو بہت سراہا گیا۔ اس کے بعد پاکیزہ فلم کا گانا’چلتے چلتے کہیں کوئی مل گیا تھا‘، ہیر رانجھا کا’یہ دنیا یہ محفل‘ اور ارتھ کے گیت’تم اتنا جو مسکرا رہے ہو‘ بے حد مقبول ہوئے۔ 

 

ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔اردو شاعری کے فروغ کے لئے انتھک کام کرنے پر انہیں ساہتیا اکیڈمی فیلوشپ انعام سے نوازا گیا۔واضح رہے کہ کیفی اعظمی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد اور شاعر جاوید اختر کے سسر تھے۔ اپنے نغموں سے ناظرین کا دل جیتنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے۔

ایمز ٹی وی (ایجوکیشن) کولمبیا کی پولیس کا کہنا ہے کہ نوبیل انعام یافتہ ناول نگار گیبریل گارشیا مارکیز کے ناول ’تنہائی کے سو سال‘ کا چوری ہونے والا پہلا ایڈیشن برآمد کر لیا گیا ہے۔ یہ نایاب نسخہ دو مئی کو کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کتاب میلے میں ایک مقفل الماری سے چرا لیا گیا تھا۔

 

اس کتاب کے مالک اہم اور نایاب کتب جمع کرنے کے شوقین ہیں اور انھوں نے 1967 میں اسے خریدا تھا اور بعدازاں مارکیز نے اس پر اپنے دستخط بھی کیے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کتاب کی قیمت 60 ہزار امریکی ڈالر ہے، تاہم اس کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ ان کے نزدیک انمول ہے۔

 

پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں یہ کتاب بوگوٹا میں پرانی کتابوں کے ایک سٹال سے ملی۔ پولیس کو شبہ ہے کہ اس چوری کے پیچھے آثارِ قدیمہ اور نایاب اشیا کا کام کرنے والے تاجر ہیں۔ جس کتاب میلے کے دوران یہ نسخہ غائب ہوا تھا وہ جنوبی امریکہ میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اس کتاب میلے کا مرکزی خیال ایک تصوراتی شہر ماکوندو سے ماخوذ تھا جس کا ذکر گارشیا مارکیز نے اپنے ناول ’تنہائی کے سو سال‘ میں کیا تھا۔

 

سنہ 1982 میں ادب کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے ادیب گیبریل گارشیا کی گذشتہ برس موت کے بعد ان کے ناولوں کے پہلے ایڈیشنز کی قیمت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ سنہ 1967 میں شائع ہونے والے ناول ’تنہائی کے سو سال‘ کا پہلا نسخہ پرانی کتابوں کے ایک تاجر الوارو کاسٹیلو نے سنہ 2006 میں یوراگوئے کے دارالحکومت مونٹیوڈیو سے خریدا تھا۔ بعدازاں گیبریل گارشیا مارکیز نے اس کتاب پر اپنے دستخط کیے اور اسے الوارو کاسٹیلو کے نام یہ الفاظ لکھے تھے: ’الوارو کاسٹیلو کے لیے، پرانی کتابیں فروخت کرنے والا، آج اور ہمیشہ کے لیے، تمہارا دوست، گابو۔‘

ایمز ٹی وی (ایجوکیشن) ماہرین نے امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے ایک کام کی بات بتائی ہےجن کا کہنا ہے کہ امتحان کی تیاری کے لیے رات رات بھر جاگ کر مطالعہ کرنے کا طریقہ آپ کو کامیاب بنانے کا فارمولا نہیں ہو سکتا ہے، کیونکہ نئی تحقیق کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ ہماری قلیل مدت کی یادوں کو طویل مدتی یاداشت میں تبدیل کرنے کا نظام اس وقت زیادہ موثر طریقے سے کام کرتا ہے جب ایک شخص سو رہا ہوتا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا یہ عمل دماغ میں کس طرح سے کام کرتا ہے یہ اب بھی ایک سر بستہ راز کی طرح ہے۔

 

علم حیاتیات سے وابستہ امریکی محققین نے اپنے مطالعے میں لکھا کہ زیادہ تر جانور جن میں مکھی سے انسان تک نیند سے محروم ہونے پر بھلکڑ ہو جاتے ہیں یعنی ان کی یاداشت نیند کی کمی سے متاثر ہوتی ہے۔ہمارا مطالعہ اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ نیند، یاداشت اور سیکھنے کی صلاحیت کو بڑھانےمیں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ نتیجہ اس نظام کی وضاحت کرتا ہے جس کے ذریعے نیند اور حافظے کے نظام کا ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔

 

ماہرین نے لکھا کہ سائنس دانوں سے حاصل شدہ عام معلومات کے مطابق نیند ،یاداشت اور سیکھنے کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ لیکن اس نتیجے سے لوگوں میں دو قسم کی رائے پیدا ہوئی ہے ایک وہ جو سمجھتے ہیں کہ جو نظام نیند کو فروغ دیتا ہے وہی یاداشت کو بھی محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہے۔

 

اس حوالے سے ایک دوسری سوچ کہتی ہے کہ کیا یہ دو مختلف نظام ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حافظے کا نظام رات میں اس لیے زیادہ موثر طریقے سے کام کرتا ہے کیونکہ اس وقت دماغ پر سکون ہوتا ہے جس کی وجہ سے نیورانز (عصبی خلیات) کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں اور دماغ نیند میں اسے دہراتا ہے جو وہ دن بھر سیکھتا ہے۔

 

یا یہ کہ پھر اصل میں یاداشت کے نیورانز ہمیں نیند کی طرف راغب کرتے ہیں۔

ایمز ٹی وی (کراچی) کراچی کی سرزمین پر کچھ دنوں بعد نظرآنے والے ایک منظر کی پیشگی روداد سنئے۔۔’ویٹی کن سٹی کی سب سے معتبر شخصیت جنہیں دنیا کے ہر کونے میں رہنے والے لوگ پوپ فرانسیس کے نام سے جانتے ہیں۔۔ وہ ۔۔اور بشپ آف کنٹربری ۔۔کراچی آئے ہوئے ہیں۔ان کے ہاتھوں کراچی میں ایشیاء کی سب سے بڑی صلیب کا افتتاح ہونا ہے۔ ‘

 

افتتاح کے ساتھ ہی کراچی کو ایک ایسا لینڈ مارک مل جائے گا جو ابھی تک اسے حاصل نہیں۔ مزار قائد اعظم اور حبیب بینک پلازہ کی فلک بوس عمارت کراچی کے ماضی کو بیان کرتے لینڈ مارکس ضرور ہیں، لیکن جدید اور ایسا لینڈ مارک جو پاکستان میں بسنے والی اقلیتی برادری کی بھی نمائندگی کرے ۔۔ وہ کچھ دن بعد ہی ممکن ہوسکے گا۔

 

کنکریٹ اور اسٹیل سے بننے والی اس صلیب کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ایشیاء کی سب سے بڑی صلیب ہوگی۔ 140 فٹ اونچی اور 20 فٹ گہری۔

اس صلیب کے ڈونر پرویز ہنری گل بتاتے ہیں کہ یہ ’پاکستان میں رہنے والی اقلیتوں کی نمائندگی کو ظاہر کرے گی۔‘ صلیب کہاں ہے فی الحال سیکورٹی کی غرض سے اس مقام کو خفیہ رکھا جارہا ہے۔

 

صلیب کی ایک اور سب سے منفرد بات یہ ہے کہ اس کی تعمیراتی ٹیم میں مسلمان کاریگر بھی شامل ہیں۔ ابتدا سے اب تک تقریباً200 کاریگر اس کام میں شامل رہے ہیں اور اس تعداد میں مسلمان کاریگروں کی تعداد تقریباً نصف یا اس سے زیادہ رہی ہے۔ شروع شروع میں کچھ لوگ صلیب کی تعمیر میں حصہ لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ لیکن، اب تعمیراتی ٹیم میں مسلمان اور عیسائی دونوں مل کرکام کررہے ہیں۔

ایمز ٹی وی (پاکستان) اسلام دیگر مذاہب کے مقابلے میں جواں سال ہے۔۔ اس کے ظہور پذیر ہوئے صرف 1400 سال گزرے ہیں۔ لیکن، جس تیزی سے یہ پھیل رہا ہے، یہ رواں صدی کے دوران دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔

 

یہ پیشن گوئی ہے ’پیو رسرچ سنٹر‘ کے ماہر شماریات کی، جو کہتےکہ عقائد کی بنا پر اعلیٰ شرح پیدائش ان کی نمو کو تیز کرتی ہے۔ ماہ رواں کے آغاز پر جاری کردہ ’پیو رسرچ‘ کے سروے رپورٹ کی یہ ہیڈ لائین ہے جس میں مذاہب کے مستقبل کا جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ موجودہ رجحان جاری رہا، تو  2070ء میں مسیحیت پیچھے رہ جائے گی اور اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔ پیو کے ’ریلیجن اینڈ پبلک لائف پروجیکٹ‘ کے صدر دفتر میں ہونے والے حالیہ سمینار میں بحث کے دوران ماہرین شماریات کے پینل نے رپورٹ کے نتائج پر بحث  کی۔

 

رپورٹ کے نمایاں محقیق، کونرڈ ہیکٹ کہتے ہیں کہ دنیا بھر میں شرح پیدائش دو  اشاریہ ایک فی خاتون، جبکہ مسلم خاتون کے ہاں یہ شرح اوسطاً تین بچوں کی ہے۔ اسی دوران، مسلمانوں کی ایک تہائی پندرہ برس کی عمر میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان آبادی میں دیگر مذاہب کے مقابلے میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جو شرح نمو میں اضافہ کے اہل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو دنیا کی آبادی میں تیزی سے اضافے کی شرح رکھتا ہے۔

 

لیکن، پیو پروجیکٹ افریقہ کے بارے میں تھا، جہاں توقع ہے کہ اس کی آبادی 2050ء تک دوگنی ہوجائے گی، یعنی ایک ارب نئے انسان جو اسلام اور مسیحیت کے ماننے والے ہوں گے۔ امریکہ میں مسلمان ایک سے لے کر دو فیصد کی شرح سے بڑھیں گے جبکہ یورپ میں اس اضافے کی شرح چھ تا دس فیصد ہوگی۔

 

برطانوی پاپولیشن اسٹیڈیز کے پروفیسر ڈیوڈ ووس کہتے ہیں کہ نتائج کو صدیوں کی بنیاد پر دیکھنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ بڑی آبادی کسی کے غلبے کی ضامن نہیں۔ بقول اُن کے، ’معاشی اور ثقافتی پیداور اہم ہے۔ ممالک  عالمی معشیت اور طاقت میں تعداد کا مقابلہ اثر و رسوخ سے کرسکتے ہیں۔‘

 

ایمز ٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) دنیا میں جہاں ریمورٹ کنٹرول کی مدد سے ایک مسافر طیارے کی آزمائشی طورپر کامیاب لینڈنگ اور پروازکا مظاہرہ کیا جاچکا ہے تو جرمن کمپنی ڈائملر کے ماہرین نے اس عمل کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک ایسا ٹرک تیار کرلیا ہے جسے چلانے کے لیے کسی ڈرائیور کی ضرورت نہیں بلکہ وہ خود کار طریقے سے اپنی منزل پر پہنچ جاتاہے۔

 

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق نیوڈا میں بغیرڈرائیورٹرک کو سفرکرنے کی اجازت مل گئی جہاں ٹرک میں نہ صرف وائی فائی، سینسرز اورکیمرے موجود ہیں بلکہ ایسا سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے جو سڑک پر گزرتی گاڑیوں کا بھی خیال رکھتا ہے جب کہ ڈرائیورآرام سے بیٹھ کراپنی منزل کا انتظار کرتا ہے میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی صحرائی ریاست نیواڈا نے جرمن کمپنی ڈائملر کے بنائے ہوئے ایک خود کار ٹرک کو سڑکوں پر سفر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

 

ریاست نیواڈا کے گورنربرین سینڈول نے کہا ہے کہ انھیں فخر ہے کہ نیواڈا ٹرانسپورٹ کی تاریخ کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ نیواڈا حکام نے اجازت نامہ جاری کرنے سے پہلے ڈائملرخود کارٹرک کے حفاظتی انتظامات، تجربات اور آزمائشی سفرکا بغورجائزہ لیا۔

ایمز ٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) زمین پراپنا گھر حاصل کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے لیکن دبئی میں اب سمندر میں  لگژری لائف اسٹائل کے گھر  تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے جو کہ آئندہ برس مکمل کر لیا جا ئے گاْ،یہ پہلے گھر ہوں گے جن کی تین منزلیں ہیں جن میں سے ایک پانی کے نیچے اور دو پانی کے اوپر ہوں گی۔

 

زندگی کی تمام سہولتیں دینے والے گھروں کوایک کشتی کی طرح آسانی کے ساتھ لے جایا جا سکے گا ان گھروں کی تعمیر کا منصوبہ بنانے والی معروف تعمیراتی کمپنی کلینڈینسٹ گروپ نے فی الحال اس طرح کے صرف 42 ولاز تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ان کی قیمت ابھی طے کی جانی باقی ہے۔

 

کمپنی کے مطابق یہ تیرتے ولاز 3 منزلہ ہوں گے جن میں سے ایک منزل ماسٹر بیڈ روم جو سمندر کے اندر پانی میں جبکہ اوپر کے دونوں کمرے عام استعمال کیلئے ہوں اور ان تینوں کمروں کے ساتھ ساتھ باتھ روم کی سہولت بھی میسر ہو گی۔ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو جوزف کلینڈینسٹ کے مطابق یہ گھر آئندہ برس مکمل ہو جائیں گے اور ہمیں امید ہے کہ یہ گھر لگژری لائف اسٹائل رکھنے والے لوگوں کو بہت پسند آئیں گے۔

ایمز ٹی وی (ہیلتھ ڈیسک) ہم دن بھر جو کچھ کھاتے اور پیتے ہیں وہ خون میں شامل ہو کر ناصرف ہمیں توانائی فراہم کرتا ہے بلکہ ہماری غذا بلاواسطہ یا بالواسطہ دماغی کارکردگی اور صلاحیت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق چند غذاؤں کے باقاعدہ استعمال سے انسانی ذہنی کارکردگی میں 20 فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں 10 ایسی غذاوں کے بارے میں جن کے استعمال سے یاداشت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

بیری: ذہنی دباؤ اورغصے کے باعث انسان کا دماغ اپنی عمر سے پہلے ہی سٹھیانا شروع ہوجاتا ہے، بیریوں میں موجود قدرتی اجزا تکسیدی دباؤ کے خلاف کارگر ثابت ہوتے ہیں اوراشتعالی کیفیت کے سدباب کے طورپرکام کرتے ہیں۔ بیریوں کا اخروٹ اور ناشپاتیوں کے ساتھ استعمال، انسانی دماغ کے خلیوں کو جوان رکھتا ہے، جس سے دماغی کارکردگی اور سوچنے کی صلاحیت میں بہتری آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

کیلا: دماغ کی بہترین کارکردگی کے لیے خون میں گلوکوز کی مقدار کم از کم 25 گرام ہونا ضروری ہے اور کیلا ایسا پھل ہے جس میں گلوکوز کی مطلوبہ مقدار موجود ہوتی ہے جو دماغی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے۔

انڈے: وٹامن بی یادداشت کو بہتر بنانے اور دماغ کی جانب سے ردعمل کے وقت کو بہتر بناتا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انڈے وٹامن بی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ دہی دہی انسانی جسم کے لئے کیلشیم، حمیات اور وٹامنز فراہم کرنے کا ایک آسان اور بہترین طریقہ ہے- ان اجزا کی بدولت دماغی صلاحیتوں کو فراغ ملتا ہے۔ مچھلی: مچھلی اومیگا تھری ، پروٹین ، فولاد اور وٹامن بی کا خزانہ ہوتی ہے جودماغ کے دہرانے کےعمل کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ استدلال کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔

بینگن: بینگن کا استعمال دماغ کے خلیوں اور پیغام رساں مالیکیولز کے درمیان رابطے کو بہتر بناتا ہے جس کےدماغ پر حیرت انگیز طور پرخوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔

سبز چائے: سبز چائے کا استعمال انسان کے اعصابی طنام کو بہتر بنانے کا سبب بنتا ہے۔

کچی گاجر کچی گاجروں کواپنی روز مرہ خوراک کا باقاعدہ حصہ بنانے سے خون میں شکر کی مقدار متوازن رہتی ہے جو آپ کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے۔

کافی: کافی میں موجو د کیفین کا استعمال یادداشت اور آنکھوں پر اچھا اثرڈالتا ہے خصوصا ان لوگوں کے لیے جو گھنٹوں کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔

چاکلیٹ: ڈارک چاکلیٹ کا استعمال ذہنی ارتکاز کو بہتر بناتا ہے، جب کہ دودھیا چاکلیٹ تصویری یاداشت، بولنے کی صلاحیت ، اور ردعمل میں بہتری لاتی ہے ۔

 

ایمز ٹی وی (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) پاکستان کے ہونہار نوجوان اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے دنیا کے کسی بھی ملک کے طلبہ سے کم نہیں جس کی تازہ ترین مثال پشاور کے طلبہ ہیں جنہوں نے نابینا افراد کے لئے چھڑی کی مدد کے بغیر چلنے والا خصوصی ٹوپی تیار کی ہے۔

 

پشاور یونیورسٹی کے 4 ہونہار طلبہ علموں نے نابینا افراد کے لیے الیکٹرانک کیپ فار بلائینڈز کے نام سے ایک ایسا ہیلمٹ تیار کیا ہے جس کی مدد سے بینائی سے محروم افراد آسانی کے ساتھ چل پھر سکتے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹرانکس کے طالب علموں نے اس الیکٹرانک کیپ کو صرف 2 ماہ کی قلیل مدت میں 7 ہزار روپے کی لاگت سے تیار کیا ہے۔

 

الیکٹرانک کیپ تیار کرنے والے طالب علموں کا کہنا ہے کہ اس ہیلمٹ نما ٹوپی کی مدد سے نابینا افراد بھی دوسرے لوگوں کی طرح روزمرہ کے کام کر سکتے ہیں۔ یہ الیکٹرانک کیپ ایک بیٹری کی مددسے چلتی ہے، کیپ کے چاروں اطراف سینسرز لگائے گئے ہیں جو کہ راستے میں آنے والی رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور رکاوٹ قریب آنے کی صورت میں آواز یا پھر وائبریشن کے ذریعے خبردار کرتی ہے، یہ آواز یا وائبریشن الیکٹرانک کیپ کے صرف اُس رُخ پر ہوتی ہے جس سے رکاوٹ کی نشاندہی ہوتی ہے۔

 

پراجیکٹ سپروائزر ڈاکٹر محمد آصف کا کہنا ہے کہ یہ طالب علموں کی ایک بہت ہی اچھی کاوش ہے جس سے مستقبل میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پراجیکٹ کو دوسرے مرحلے میں گوگل میپ کے ساتھ منسلک کیا جائے گا تاکہ یہ کیپ اور زیادہ بہتر طریقے سے کام کرسکے۔

 

پروفیسر آصف کہتے ہیں کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں اور انڈسٹری کے درمیان رابطوں کا بہت زیادہ فقدان ہے، بدقسمتی سے نئی ایجادات کو مارکیٹ میں متعارف نہیں کرایا جاتا جس کی وجہ سے اچھی ایجادات محض کتابوں تک محدود رہ جاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے کچھ اساتذہ اور طالب علموں نے بھی اس الیکٹرانک ٹوپی میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور وہ اس میں جدید سافٹ ویئر ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے لیے کوشاں ہیں جو بہت خوش آئند بات ہے، طالب علموں کی اس ایجاد کو نابینا افراد کی بینائی کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔

ایمز ٹی وی (پاکستان) ماں ایک ایسا رشتہ ایک ایسا تعلق جس سے محبت کسی دن کی محتاج نہیں دنیا کے ہر معاشرے میں اس عظیم ہستی کا احترام کیا جاتا ہے اسی محبت اور عقیدت کے اظہار اور ماں کی عظمت کو یاد گار بنانے کے لیے  دنیا بھر میں عام طور 10  مئی کو ماؤں کا عالمی دن یعنی مدرزڈے کے طور پرمنایا جاتا ہے لیکن کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ مدرزڈے کا آغٓاز کب ہوا اور کس طرح یہ پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔

 

مدرز ڈے کی ابتدا:

زمانہ قدیم میں یونانی اور رومن اپنے دیوتاؤں ’’ریا‘‘ اور ’’سائبیل‘‘ کو ماں کا درجہ دے کر ان کا دن مناتے تھے لیکن اس دن کا باقاعدہ آغاز امریکا سے ہوا جہاں 1908 میں مشہور سماجی شخصیت این ریوس جاروس  کے انتقال کے بعد اس کی بیٹی اینا جاروس نے اپنی ماں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے گرافٹن کے میتھو ڈیس چرچ میں دنیا کا پہلا باقاعدہ مدر ڈے منایا جس کے بعد میں پوری دنیا میں ایک نئی روایت کا جنم ہوا۔ میتھو ڈس چرچ میں مدرڈے منانے کے بعد اینا نے کوشش کی کہ اس دن کو قومی سطح پر منایا جائے اور بالآخر وہ 1914 میں اپنے مقصد میں کامیابی ہو گئی اور اس وقت کے امریکی صدر ووڈ را ولسن نے ہرسال مئی کے دوسرے اتوار کو ماؤں کے نام کرنے کا اعلان کردیا۔

 

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دن کو امریکا میں قومی دن بنانے کے لیے انتھک کوشش کرنے والی خاتون اینا جاروس نے پوری زندگی شادی ہی نہیں کی تھی اس لیے وہ ماں ہی نہیں بن سکی جب کہ انہوں اپنی پوری زندگی دنیا میں امن کے قیام کی کوششوں میں لگادی۔

 

برطانیہ اور یونان  میں ماؤں کی عظمت کی یاددہانی کے لیے ابتدا میں مدرنگ سنڈے منایا جاتا تھا جس روز لوگ اپنے علاقے کے سب سے بڑے چرچ جسے مدر چرچ کہا جاتا تھا وہاں جمع ہوجاتے اور خصوصی سروسز کا اہتمام کرتے تاہم برطانیہ میں اب بھی یہ دن کچھ اسی انداز میں منایا جا تا ہے لیکن اب جدید دور میں بچوں نے اپنی ماؤں سے محبت کے اظہار کے لیے دلکش اور خوبصورت کارڈز بنا کر اس دن کو اور بھی یادگار بنادیا ہے۔

 

کچھ معاشروں میں اس دن کو مختلف ناموں سے منایا جاتا ہے جیسے کیھولک ممالک میں اسے ورجین میری ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ بولیویا میں جس جنگ میں خواتین نے اہم کردار ادا کیاتھا اسی دن کو مدر ڈے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سابق کیمونسٹ ممالک میں مدر ڈے کی بجائے انٹرنیشنل وومن ڈے منایا جاتا ہے اور اب بھی روس میں اسی دن کو مدر ڈے کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے تاہم یوکرائن اور کرغزستان میں وومن ڈے کے ساتھ ساتھ اب مدر ڈے بھی منایا جانے لگا ہے۔

 

دنیا کے مختلف مذاہب میں اہمیت:

رومن کیتھولک چرچ میں مدر ڈے کو ورجن میری سے منسلک کیا جاتا ہے اور اس روز لوگ گھروں پر خصوصی سروسز کا اہتمام کرتےہیں ۔ بھارت اور نیپال میں اس دن کو ماتا ترتھا آونشی کے نام سے بیساکھی کے ماہ میں نئے چاند کے دن منایا جاتا ہے جو عام طور پر اپریل یا مئی میں آتا ہے۔

 

عرب ممالک میں مدرڈے عام طور پر 21 مارچ کو موسم بہار کے پہلے دن منایا جاتا ہے۔ مصر میں اس دن کی ابتدا تو 1943 میں ہوگئی تھی تاہم اسے باقاعدہ حکومتی سطح پر 21 مارچ 1956 کو منایا گیا اور اسی روایت کو پوری عرب دنیا میں اسی دن منایا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی مدر ڈے منایا جاتا ہے تاہم ہر ملک اپنی روایات اور ثقافت کے مطابق اسے مختلف تاریخوں پر مناتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ دن ہر معاشرے میں  اپنا وجود رکھتا ہے جو ماں سے محبت اور اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔