بدھ, 09 اکتوبر 2024
Reporter SS

Reporter SS

کراچی: جامعہ کراچی کے شعبہ صحت ، فزیکل تعلیم اور اسپورٹ سائنسز کی جانب سے ڈاکٹرآف فزیکل تھراپی بلڈنگ کے سنگِ بنیاد کی تقریب کا انعقادکیا جا رہے۔جو کل 23 جنوری کو صبح 10:30بجے کڈنی سنٹر کے قریب کیا جائیے گا۔

اس تقریب کے مہمان خصو صی وزیر اعلیٰ سند ھ کے مشیر برائے ورکس اینڈ سروسز،یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نثاراحمد کھوڑو ہوں گے اور اس تقریب کی صدارت جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد عراقی کریں گے۔

صدر آفتاب میموریل ویلفیئر ایسوسی ایشن مسعود الحسن اور نائب صدر شبیہ الحسن خطاب کریں گے جبکہ چیئر مین ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی پروگرام ڈاکٹر باسط انصاری خطبہ استقبالیہ پیش کریں گے

کراچی : انسٹیٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ کی جانب سے سال 2020 کا کیریئر فیئر کل 23 جنوری کو کورانگی کریک میںبمقام آئی او بی ایم میں کانووکیشن ایریا میں منعقد کیا جائے گا ۔

جو صبح دس بجے سے شام چار بجے تک جار ی رہے گا۔ یہ کیریئر فیئر آئی او بی ایم کے انٹرنشپ، پلسمنٹ اینڈ انٹرنشنل آفس کی جانب سے منعقدکیاجا رہا ہے۔ اس فیئر میں پچاس سے زائد کمپنیز اپنے اسٹالز لگائےگی

جنکا مقصد طلبہ کیلئے انٹرنشپ اور جاب کے مواقعہ فراہم کرنا ہے۔ یہ کمپنیز طلبہ کو اپنے ادارے کے بارے میں معلومات فراہم کریں گی اور طلبہ کے انٹرویوز کریں گی۔ یہ تقریب آئی او بی ایم کےموجودہ اور سابق طلبہ کے لئے منعقد کی جا رہی ہے۔

کراچی: جامعہ کراچی کے وائس چانسلرکے تقررکیلیے اسکروٹنی کے بعد سات شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کے انٹرویو 28 جنوری بروز منگل کولئےجائیں گے۔
 
اس اجلاس میں تلاش کمیٹی کے کوآپٹیڈممبر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضاصدیقی نے شرکت نہیں کی۔ذرائع کے مطابق ڈاکٹرپیرزادہ قاسم کے بھتیجے پیرزادہ جمال چونکہ جامعہ کراچی کے وائس چانسلرکے امیدواروں کی فہرست میں شامل تھے، اس لیے انھوں نے اس اجلاس میں تحریری طورپرشرکت سے معذرت کرلی تھی۔ ذرائع کے مطابق پیرزادہ جمال کا نام شارٹ لسٹ کیے گئے7 افرادمیں شامل نہیں ہے۔
 
جن7 امیدواروں کے نام شارٹ لسٹ کیے گئے ہیں اس میں جامعہ کراچی کے موجودہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرخالد عراقی، سندھ یونیورسٹی جامشوروکے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹرفتح محمدبرفت ،جامعہ کراچی شعبہ جغرافیہ کے پروفیسر ڈاکٹر جمیل کاظمی، شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسرڈاکٹر عابد حسنین، پروفیسر ڈاکٹراحمد قادری، شہید ذوالفقار علی بھٹویونیورسٹی آف لا کے ڈین ڈاکٹر رخسار احمداورزرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے ڈین خلیل احمد ابوپوٹو شامل ہیں۔
 
درخواست دینے والے امیدواروں کی تعداد 23 تھی جن میں سے 7 امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیاگیا ہے ان امیدواروں کے انٹرویوزکے بعد تین نام منتخب کرکے کنٹرولنگ اتھارٹی وزیراعلیٰ سندھ کوبھجوائے جائیں گے اوروزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ان میں سے کسی ایک نام کی بطوروائس چانسلرجامعہ کراچی منظوری دیں گے۔
واشنگٹن: امریکا نے عدالتی حکم کے باوجود بوسٹن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایرانی طالب علم کو ملک بدر کردیا۔
 
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکی امیگریشن حکام نے ایرانی طالب علم کو ملک بدر کردیا، 24 سالہ محمد شہاب حسین عابدی بوسٹن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے تھے اور امریکی سول لبرٹیز یونین اور دیگر قانونی ماہرین نے ایرانی طالب علم کو ملک بدر کرنے کی شدید مخالف کی تاہم ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔
 
رپورٹس کے مطابق امریکا میں مقیم ایرانی طالب علم شہاب حسین امریکا ایران کشیدگی کے پیش نظر سیکیورٹی اقدامات کے تحت ملک بدر کیا گیا، یہ سیکیورٹی اقدامات امریکی کسٹم اور بارڈر پروٹیکشن کی جانب سے اٹھائے گئے تھے تاہم اس واقعے کے بعد امریکا میں مقیم ایرانی شہریوں کے ساتھ منصفانہ سلوک سے متعلق سوالیہ نشان پایا جاتا ہے۔
واشنگٹن:خلاوں میں بچوں کوپپسندیدہ کہانیاں سنانےکاآغاز ہوگیا اس وقت بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے خلا نورد روزانہ ہی بچوں کو ان کی پسندیدہ کتابیں پڑھ کر سنارہے ہیں، ناسا نے بطورِ خاص یہ سلسلہ شروع کیا ہے جسے ’اسٹوری ٹائم فرام اسپیس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
 
یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ بچوں کو سوتے وقت کہانیاں اور واقعات سنانے سے ان میں الفاظ کا چناؤ، پڑھنے کی ترغیب اور فکری قوت بھی بڑھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے والدین اپنے بچوں کو کہانیاں سناتے ہیں تاہم بعض بچے اس سے محروم رہتے ہیں اور اسی کمی کو دور کرنے کے لیے اصل خلانوردوں نے ناسا کے تعاون سے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔
 
گلوبل اسپیس ایجوکیشن فاؤنڈیشن اور ناسا کے تعاون سے یہ پروگرام شروع کیا گیا ہے جس میں خلانورداپنی تحقیق اور کام سے فارغ ہوکر خلا سے بچوں کو مشہور کلاسیکی کہانیاں سناتے ہیں۔ اس طرح بچے گھر بیٹھےخلا سے ان کی کہانیاں سن سکتے ہیں۔
 
یہ منصوبہ ایک ماہرِ تعلیم پیٹریشیا ٹرائب اور خلانورد بنجامن ایلوِن ڈریو جونیئر نے مشترکہ طور پر شروع کیا ہے۔ اس کے لیے خصوصی طور پر بچوں کی مشہور کتابیں خلائی اسٹیشن پر پہنچائی گئیں۔ پہلے خلانورد کتاب پڑھتے ہوئے ویڈیو بناتے ہیں اور پھر اسے یوٹیوب چینل اور اپنے ویب پیچ پر اپ لوڈ کردیتے ہیں۔
 
اس طرح کہانیاں سننے سے ایک جانب بچوں میں مطالعے کا شوق بڑھتا ہے تو دوسری جانب خلا اور سائنسی علوم میں بھی دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے بنجامن ایلوِن نے ’میکس گوز ٹو دی مون‘ نامی کتاب پڑھی جو خلائی شٹل ڈسکوری کی آخری پرواز کے متعلق ایک خوبصورت کہانی ہے۔
 
اس کے بعد تمام خلانوردوں نے بچوں کے لیے خلا سے کہانیاں پڑھیں جو بہت مقبول ہورہی ہیں۔ علاوہ ازیں خلانوردوں نے آئی ایس ایس پربچوں کے لیے سائنسی تجربات بھی انجام دیئے ہیں۔

 مانیٹرنگ ڈیسک:ہواوے نے نیشنل بینک آف پاکستان اور یونین پے انٹرنیشنل کے اشتراک سے پاکستان میں اپنی موبائل والٹ سروس (پیمنٹ سروس) متعارف کرادی ہے۔

ہواوے پے نامی یہ سروس اس سے پہلے چین، روس اور ہانگ کانگ میں متعارف ہوئی تھی اور پاکستان چوتھا ملک ہے جہاں اسے پیش کیا گیا۔
 
ہواوے یا آنر اسمارٹ فونز استعمال کرنے والے ایسے صارفین جو نیشنل بینک یونین پے ورچوئل کارڈ رکھتے ہیں، ہوہ ہواوے ایپ گیلری سے ہواوے والٹ ایپ کو ڈاﺅن لوڈ کرکے اسے ادائیگیوں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
 
اس سروس کو سب سے پہلے اگست 2016 میں ہواوے اور یونین پے نے چین میں متعارف کرایا اور اب چینی کمپنی نے پاکستان میں اسے پیش کرتے ہوئے اسے ایک اہم سنگ میل قرار دیا ہے۔
 
کمپنی کے مطابق ہواوے پے ہواوے یا آنر اسمارٹ فونز سے ادائیگیوں کا آسان اور محفوظ طریقہ کار ہے جو کہ کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ کی جگہ لے گا، جس کے لیے ہواوے والٹ میں نیشنل بینک کارڈ کا اضافہ کرنا ہوگا جبکہ ادائیگی یونین پے کیو آر کوڈ کے ذریعے ہوگی
 
فلیگ شپ فونز کے لیے مستقبل قریب میں ہواوے پے سے ادائیگیوں کو زیادہ آسان بنایا جائے گا اور کانٹیکٹ لیس ادائیگیاں کی جاسکیں گی۔
 
اس حوالے سے ہواوے موبائل سروسز (ایم ای اے) کے مینجنگ ڈائریکٹر ایڈم شیاﺅ نے کہا 'نیشنل بینک آف پاکستان اور یونین پے انٹرنیشنل کے ساتھ مل کر ہم ہواوے پے کو پاکستان میں متعارف کرانے پر بہت پرجوش ہیں، ہواوے موبائل سروسز جدید ترین ٹیکنالوجیز اور سروسز کو عالمی صارفین تک پہنچانے کا عزم رکھتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکنالوجی کی جدت سے سہولت حاصل ہوسکے'۔

کراچی:  شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی بے نظیر آبادمیں سرچ کمیٹی نے وائس چانسلر (وی،سی) کے عہدے کے لیے تین نام منتخب کر کے سمری منظوری کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو ارسال کردی ہے۔

وزارت یونیورسٹیز اینڈ بورڈ سندھ ذرائع کے مطابق عہدے کے لیے منتخب کردہ افراد میںڈاکٹر سرفراز حسین سولنگی، پرفیسر ڈاکٹر امانت علی جلبانی اور پروفیسر نبی بخش جمالی کے نا م شامل ہیںامیدواروں میں ڈاکٹر سرفراز حسین سولنگی وائس چانسلر کے عہدے کے لیے ایک مضبوط امیدوار ہیں۔

یاد رہے کہ وائس چانسلرکے عہدے کے لیے درخواستیں دینے والے امیدواروں کی تعدادپینتالیس(45)تھیں،جن میں سے چودہ (14) امیدواروں کو شارٹ لسٹ کرنے کے بعد پندرہ جنوری بروز بدھ انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔

امیدواروں میں شامل شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلرپرفیسر ڈاکٹرطیبہ ظریف نے انٹرویو نہیںدیا اور غیر حاضر رہیں۔ انٹرویو دینے والے امیدواروں میں ڈاکٹر سرفراز حسین سولنگی، ڈاکٹر حسین بخش مری ،سندھ یونیورسٹی میرپور خاص کیمپس کے پرو وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر امداد علی اسماعیل، ڈاکٹربشیر احمد میمن، ڈاکٹر غلام رضا بھٹی،پروفیسر ڈاکٹراحمد حسین، پروفیسر ڈاکٹرسلیم رضا سموں ، پروفیسر ڈاکٹرخلیل احمد ابو ٹوپو ،پروفیسر ڈاکٹر محمد سفر میر جت،پروفیسر ڈاکٹر محمد عثمان کیریو، پروفیسر ڈاکٹر امانت علی جلبانی اور پروفیسر نبی بخش جمالی شامل تھے۔

کراچی: ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے چیئرپرسن پروفیسر سعید الدین کی ہدایات کے مطابق ضمنی امتحانات 2019 میں فیل ہو جانے والے طلبہ کو دوبارہ 2020 کے سالانہ امتحانات کے لئے رجسٹریشن اور پرمیشن فارم 24 جنوری تک بغیر لیٹ فیس جمع کرانے کی ہدایات دی گئیں، اس تاریخ کے بعد فارم لیٹ فیس کے ساتھ جمع کیا جائے گا۔

واضح رہے کے پہلے سے جاری شدہ نوٹفکیشن کے مطابق 17جنوری سے لیٹ فیس2500روپے کے ساتھ رجسٹریشن اور اور پرمیشن فارم جمع کراسکتے ہیں۔

کھانے کی عدم تحفظ میں مبتلا 10٪ سے 37٪ افراد  میں وقت سے پہلے مرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے

20 جنوری ، 2020 کو CMAJ (کینیڈا میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل) میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ غذائی تحفظ میں مبتلا بالغ افراد میں  (یعنی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے خوراک تک ناکافی رسائی) کھانے سے محفوظ لوگوں کے مقابلے میں کینسر کے علاوہ کسی بھی وجہ سے قبل از وقت مرنے کا امکان 10 فیصد سے 37 فیصد زیادہ ہوتاہے۔

ٹورانٹو یونیورسٹی میں پروفیسر ویلری تاراسوک کی لیب میں پوسٹ ڈاکیٹرل فیلو کے زیر اہتمام مصنف ڈاکٹر فی مین لکھتے ہیں: ان بالغوں میں جو قبل از وقت انتقال کرگئے ، ان افراد میں جو کھانے کی شدید عدم تحفظ کا سامنا کررہے ہیں وہ ان کی خوراک سے محفوظ سات سالوں کی نسبت 9 سال پہلے ہی میں فوت ہوگئے۔ 

محققین نے کینیڈا میں کمیونٹی ہیلتھ سروے 2005-2017 کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جس سے کینیڈا میں نصف ملین (510 010) سے زیادہ بالغ افراد شامل ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی  کھانے کی محفوظ ، یا معمولی ، اعتدال پسند یا شدید غذائی تحفظ سے محفوظ درجہ بندی کی  ۔ تحقیق کے اختتام تک ، 2560 افراد قبل از وقت ہی دم توڑ چکے تھے ، ایسے افراد کے ساتھ جو کھانے کی سخت عدم تحفظ کے شکار افراد اپنے کھانے سے محفوظ ساتھیوں (جو 59.5 سال کی عمر میں 68.9 سال) سے 9 سال کم عمر میں مر رہے تھے۔کینیڈا میں2004سے2014 تک کے اعداد و شمار کے مطابق اوسطاعمر یا متوقع عمر 82 سال تھی۔ اس مطالعے میں اس عمر میں یا اس سے پہلے ہونے والی اموات کو قبل از وقت سمجھا جاتا تھا۔سختی سے کھانے سے غیر محفوظ ہونے والے بالغ افراد کے کینسر کے سوا تمام وجوہات کی بنا پر ان کے کھانے سے محفوظ ساتھیوں کے مقابلے میں قبل از وقت موت کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

متعدی  بیماریوں ، غیر ارادی زخموں اور خودکشیوں کی وجہ سے قبل از وقت موت کا امکان ان لوگوں کے لئے دو گنا سے بھی زیادہ تھا جو کھانے کے شدید عدم تحفظ کا سامنا کرتے ہیں۔پچھلے مطالعات میں ناکافی خوراک اور موت کے مابین تعلقات کا جائزہ لیا گیا ہے ، حالانکہ کسی نے بھی موت کی وجوہات کی طرف نہیں دیکھا۔مصنفین لکھتے ہیں ، "ممکنہ طور پر قابل اموات کے ساتھ کھانے کی عدم تحفظ کے ہر سطح کے اہم ارتباط سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کھانے سے غیر محفوظ بالغ افراد صحت سے متعلق بیماریوں اور چوٹوں کی روک تھام اور ان کے علاج کے لئے صحت عامہ کی کوششوں سے کم فائدہ اٹھاتے ہیں۔"غذائی عدم تحفظ کو دور کرنے کی پالیسیاں قبل از وقت موت کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں شدید غذائی عدم تحفظ کے خطرناک حد تک اعلی اموات کا خطرہ پالیسیوں کی مداخلت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جو گھروں کو انتہائی محرومی سے بچاتے ہیں۔

کناڈا میں ، ایسی پالیسیاں جو کم آمدنی والے گھرانوں کے مادی وسائل کو بہتر بناتی ہیں انھیں فوڈ سیکیورٹی اور صحت کو مستحکم کرنے کے لئے دکھایا گیا ہے ، "ڈاکٹر مرد کہتے ہیں۔ کینیڈا میں گھریلو خوراک کی عدم تحفظ اور اموات کے مابین ایسوسی ایشن: آبادی پر مبنی ایک سابقہ ​​مطالعہ "فی مین ، کریگ گونسن ، مارسیلو ایل اروقیہ اور ویلری تاراسوک ، 20 جنوری 2020 ، CMAJ (کینیڈا میں میڈیکل ایسوسی ایشن جرنل)۔

 

 

 
 
چین: چین کے علاقے ووہان سے شروع ہونے والے نئے وائرس کی انسان سے انسان میں منتقلی کی تصدیق کے ساتھ اس سے مرنے والے افراد کی تعداد چار ہو گئی ہے جبکہ یہ وائرس اب ملک کے دیگر بڑے شہروں میں بھی پھیل رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ وائرس چین کے وسطی شہر ووہان سے پھوٹا، جس کی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ کے قریب ہے۔پیر کو اس کے 136 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ اس سے پہلے شہر میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 62 تھی۔اتوار کی شام تک حکام کا کہنا تھا کہ 170 افراد کا ہسپتالوں میں علاج جاری ہے جن میں سے نو کی حالت نازک ہے۔
 
یہ وائرس کیا ہے
اس وائرس کے نمونوں کو ٹیسٹ کے لیے لیبارٹری میں بھجوایا گیاہے جہاں ان پر تحقیق کی گئی۔عالمی ادارہ صحت کے حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کورونا وائرس ہے۔ اس وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے چھ اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر سات ایسی قسمیں ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ان کی وجہ سے بخار ہوتا ہے سانس کی نالی میں شدید مسئلہ ہوتا ہے۔ سنہ 2002 میں چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے 774 افراد ہلاک ہوئے اور مجموعی طور پر اس سے 8098 افراد متاثر ہوئے تھے۔
 
احتیاطی تدابیر
ہانگ کانگ یونیورسٹی میں شعبہ پبلک ہیلتھ کے صدر گیبرئیل لیونگ نے ایک پریس بریفنگ کے دوران اس وائرس سے بچنے کی احتیاطی تدابیر دی ہیں
اپنے ہاتھ بار بار دھویئں، اپنے ناک یا منہ کو مت رگڑیں۔
احتیاط کریں اور باہر جاتے ہوئے ماسک پہن کر رکھیں۔
پرہجوم جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں۔
اگر آپ نے ووہان کا سفر کیا ہے تو اپنا طبی معائنہ ضرور کرائیں۔
اپنے ڈاکٹر سے ہرگز یہ بات مت چھپائیں کہ آپ نے ووہان کا سفر کیا۔
 
 
سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا نے پیر کے روز ژونگ کے حوالے سے بتایا ، "ناول کورونویرس کی شناخت میں صرف دو ہفتوں کا وقت لگا۔اس سے قبل ، ژونگ نے اعتراف کیا کہ مریضوں نے نئے وائرس کا انکشاف سنٹرل شہر ووہان کا دورہ کیے بغیر کیا ہے جہاں ایسا لگتا ہے کہ یہ انفیکشن سمندری غذا کی منڈی میں شروع ہوا ہے۔
 
انہوں نے سرکاری نشریاتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ، "فی الحال ، یہ مثبت بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان سے انسان میں منتقل ہونے کا رجحان موجود ہے۔
ووہان میونسپل ہیلتھ کمیشن نے منگل کو کہا کہ چوتھا شخص 19 جنوری کو فوت ہوگیا۔ اس 89 سالہ شخص ، جس کو دل کی بیماری سمیت بنیادی صحت کی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ، اس کی علامت 13 جنوری کو پیدا ہوئی تھی اور اسے پانچ دن بعد ہی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
 
یہ وبا وسطی شہر ووہان سے بیجنگ اور شنگھائی سمیت شہروں میں پھیل چکی ہے، اب تک 200 سے زیادہ کیسسز رپورٹ کئے جا چکے ہیں ۔ چین سے باہر جنوبی کوریا ، تھائی لینڈ اور جاپان میں چار کیسسز کی تصدیق ہوچکی ہے –
جنوبی کوریا نے بھی پیر کے روز اپنے پہلے کیس کی تصدیق کی ہے جبکہ تھائی لینڈ میں دو اور جاپان میں بھی ایک کیس سامنے آیا ہے۔ متاثرہ افراد حال ہی میں ووہان سے واپس آئے تھے۔
 
سنگا پور اور ہانگ کانگ میں فضائی سفر کے ذریعے وہاں سے آنے والوں کی سکرینگ کی جا رہی ہے۔ اسی طرح کے اقدامات امریکہ نے بھی جمعے کو اپنے تین بڑے ہوائی اڈوں پر لینے شروع کیے ہیں جن میں سان فرانسسکو، لاس اینجلس اور نیویارک شامل ہیں۔
 
آسٹریلوی حکام نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ووہان سے سڈنی آنے والے مسافروں کی اسکریننگ شروع کریں گے کہ کہیں یہ وائرس عالمی سطح پر نہ پھیل جائے - ان کیسز میں تیزی سے اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب لاکھوں چینی باشندے نئے قمری سال کے موقع پر سفر کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں
عوامی نشریاتی ادارے نے منگل کو بتایا ، ایک شخص جس نے ووہان کا سفر کیا تھا اس نئی بیماری کی علامات ظاہر کررہا تھا۔
بیجنگ میں رہنے والی الجزیرہ کی کترینہ وو نے کہا ، "یہ وباء شاید کسی خراب وقت پر نہیں آسکتی تھی۔"
 
"یہ چین میں سفر کا سیزن ہے۔ حکومت نے ہمیشہ فخر کیا ہے کہ قمری نئے سال کے دوران آپ پورے ملک میں دو سے تین بلین دورے کرتے نظر آتے ہیں اور ووہان کوئی چھوٹا شہر نہیں ہے ، تقریبا گیارہ ملین افراد جو نہ صرف چین میں ، بلکہ بیرون ملک بھی سفر کریں گے ۔ یہ ایک بہت بڑا ٹرانسپورٹ مرکز ہے۔ "
ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور بہت سے ایشیائی ممالک سمیت دنیا بھر کے حکام نے ووہان سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ میں تیزی لائی ہے۔نیشنل ہیلتھ کمیشن کے سربراہ ژونگ نے کہا کہ جنوبی چین کے صوبے گوانگ ڈونگ میں دو افراد نے یہ بیماری کنبہ کے ممبروں سے پکڑی جو ووہان تشریف لائے تھے۔
ووہان میونسپل ہیلتھ کمیشن نے کہا ہے کہ ووہان میں کم از کم 15 طبی کارکن بھی اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔ ان مریضوں کو علاج کے دوران الگ رکھا جارہا ہے۔۔ اس نئے وائرس کے جنیاتی کوڈ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ رسپائریٹری سنڈروم (سارس) سے ملتا جلتا ہے۔۔ علامات میں بخار اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں ، جو سانس کی بہت سی بیماریوں سے ملتے جلتے ہیں اور اسکریننگ کی کوششوں میں پیچیدگیاں پیدا کرتی ہیں
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ، سارس کی ابتدا جنوبی چین میں 2002 میں ہوئی تھی اور اگلے مہینوں میں دنیا کے 26 ممالک میں پھیل گئی ، 8،000 سے زیادہ افراد کو اس کے زیر کنٹرول لانے سے پہلے ہی اس نے متاثر کیا۔ڈبلیو ایچ او ، جو بدھ کے روز اس وبا کے پھیلنے کے بارے میں ہنگامی اجلاس منعقد کرنے والا ہے ، نے کہا ہے کہ کسی ووہان میں وبا کا پھیلاو کسی جانور کی وجہ سے ہوا ہے
 
جنوبی کوریا نے پیر کو اپنے نئے کورونا وائرس کے بارے میں پہلا کیس پیش کیا - ایک 35 سالہ خاتون جو ووہان سے آئی تھی۔اس سے قبل تھائی لینڈ اور جاپان نے مجموعی طور پر تین کیسسز کی تصدیق کی تھی - ان سبھی نے چینی شہر کا دورہ کیا تھا۔
 
چینی ریاستی میڈیا نے دوسرے چینی شہروں میں کورونا وائرس پھیلانے کے بارے میں سوشل میڈیا پر بحث چھڑکتے ہی موڈ کو پُرسکون کرنے کی کوشش کی۔
سی سی ٹی وی کے مطابق ، پہلی بار اس معاملے پر بات کرتے ہوئے چین کے صدر شی جنپنگ نے پیر کے روز کہا کہ لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت کو "اولین ترجیح" دی جانی چاہئے اور سی سی ٹی وی کے مطابق ، اس وباء کے پھیلاؤ کو "مستقل طور پر ہونا چاہئے"۔الیون نے کہا ، "یہ ضروری ہے کہ" اس وبا کے بارے میں بروقت معلومات جاری کریں اور بین الاقوامی تعاون کو گہرا کریں "، اور لوگوں کو" مستحکم اور پرامن بہار میلہ "کو یقینی بنانا ہوگا۔
 
یاد رہے کہ گذشتہ برس دسمبر میں یہ بات سامنے آئی کہ چین کے شہر ووہان میں دو افراد سانس کی کی بیماری کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں-سائنسدان پروفیسر نیل فرگوسن کا کہنا ہے کہ وہ اس مرض کے پھیلنے کے حوالے سے اس سے زیادہ فکر مند ہیں جتنے وہ ایک ہفتے پہلے تھے۔یہ تحقیق لندن کے ایمپیریل کالج میں ایم آر سی سینٹر برائے متعدی امراض کے ماہرین نے کی ہے۔ یہ ادارہ برطانیہ سمیت عالمی ادارہ صحت کو بھی تجاویز فراہم کرتا ہے۔