Reporter SS
ایمز ٹی وی (صحت) ذیابطیس کا مرض روزانہ کی بنیاد پر توجہ چاہتا ہے اور کئی سادہ طریقے اپنا کر اسے قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ ماہرین سب سے پہلے صحت مند طرزِ زندگی اپنانے کی اہمیت پرزور دیتے ہیں اور اس کا پہلا قدم ہے کہ خون میں شکر کی سطح کو کنٹرول میں رکھا جائے۔ تاہم ماہرین نے ٹائپ ٹو ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے ان درج ذیل ہدایات پر عمل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
غذا کا خیال رکھیئے ہم جانتے ہیں کہ ہم جو کھاتے ہیں وہ خون کا حصہ بنتا ہے اور ذیابیطس میں غذا کا انتخاب بہت ضروری ہے۔ غذائی احتیاط سے اس مرض کی پیچیدگیوں کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ٹائپ ٹو ذیابیطس کے شکار افراد کے لیے ضروری ہے کہ وہ کاربوہائیڈریٹس، چکنائیوں اور پروٹین کا خاص خیال رکھیں اور کم کیلیوریز والی غذا کھائیں۔ اچھی خوراک سے وزن کو قابو میں رکھنے، خون میں شکر کی مقدار کو حد پر رکھنے اور خون میں چکنائیوں کی مقدار کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔
باقاعدہ ورزش ذیابیطس کے مرض روزانہ کم ازکم 30 منٹ کی ورزش کو اپنا معمول بنالیں، یہ ورزش جاگنگ بھی ہوسکتی ہے اور دیگر جسمانی مشقت بھی ۔ ورزش پورے جسم پر مثبت اثر ڈالتی ہے اور انسولین کی جاذبیت بڑھا کر ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں میں خون میں شکر کی مقدار کم کرتی ہے، ساتھ ہی چربی کم کرکے بدن کو مزید پیچیدگیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ اسی لیے ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ورزش بہت ضروری ہے۔
تناؤ کو دور کیجئے ذہنی تناؤ ایک خطرناک شے ہے جس سے چھٹکارا پانا ضروری ہے۔ خاص طور پر ذیابیطس کے مریضوں میں یہ بلڈ شوگر کو بڑھاتا ہے۔ یوگا، مراقبے اور دیگر طریقوں سے تناؤ کو دور کرکے خود کو پرسکون رکھئے تو اس کے زبردست اثرات مرتب ہوں گے۔
ادویات کا باقاعدہ استعمال آپ کے ڈاکٹر نے کھانے والی جو بھی دوائیں دی ہیں ان کا ناغہ نہ کریں اور دوائیاں پابندی سے کھاتے رہیئے۔ ان میں سے بعض دوائیں لبلبے کو متحرک کرتی ہیں کہ وہ انسولین پیدا کرے اور کچھ انسولین کو بہتر بناتی ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے ڈاکٹروں کے مشورے سے دوائیں ضرور کھاتے رہیں۔
انسولین ٹائپ ٹو ذیابطیس کے مریض انسولین استعمال کرتے ہیں جو خون میں شکر کی مقدار برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے انسولین کا ٹیکہ ہو یا پمپ اس کا ناغہ کرنا درست نہیں۔ انسولین استعمال کرتے ہوئے اپنے معالج سے ضرور مشورہ کیجئیے۔
ایمزٹی وی(بزنس) وفاقی وزارت پٹرولیم وقدرتی وسائل نے ملک میں بہتر معیار کے نئے پٹرول آراواین 92 کی فروخت کیلیے پٹرولیم ڈیلرز کو 15روز کی اضافی مہلت دے دی ہے۔
پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالسمیع خان نے میڈیا کو بتایا کہ پی ایس او نے ملک میں بہتر معیار کے پٹرول آراواین 92کی فروخت یکم نومبر سے شروع کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے جمعہ کے روز عبدالسمیع خان سے ملاقات میں ڈیلرز کی سہولت کیلیے نئے ایندھن کی فروخت کیلیے 15 روز کی اضافی مہلت کی یقین دہانی کرادی ہے۔
عبدالسمیع خان کے مطابق ملک میں بہتر معیار کے ایندھن کی فروخت کے حوالے سے پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی نے ڈیلرز کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی۔ ڈیلرز کا موقف ہے کہ ملک میں 50 فیصد پٹرول موٹرسائیکلوں میں استعمال کیا جاتا ہے جنہیں نئے فیول کی اضافی قیمت کی وجہ سے اخراجات میں اضافے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ڈیلرز نے حکومت کو یہ تجویز دی ہے کہ بہتر معیار کے نئے ایندھن آراواین 92کے ساتھ پرانے ایندھن آراواین 87کی فروخت بھی جاری رکھی جائے تاکہ موٹرسائیکل سواروں کو بھی معیار کے لحاظ سے دو مصنوعات میسر ہوں اور وہ اپنی قوت خرید کے مطابق ایندھن خرید سکیں۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت کے فیصلے کے مطابق ملک میں زیادہ بہتر معیار کا ایندھن آراواین 92 متعارف کرانے کیلیے نئے ایندھن کی درآمد کے سودے طے کرلیے گئے ہیں جن میں سے 55ہزار ٹن کی پہلی کھیپ اکتوبر کے آخری ہفتے میں پاکستان پہنچ جائیگی۔
ایمزٹی وی(بزنس) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لغراد نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے پرائم منسٹر ہاؤس میں ملاقات کی۔
وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آئی ایم ایف چیف کرسٹین لغراد نے کہا کہ مالیاتی اعتبار سے پاکستان کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہے اور وہ یقیناً معاشی بحران سے نکل چکا ہے۔
یہ آئی ایم ایف کے کسی سربراہ کا طویل عرصے بعد پاکستان کا دورہ ہے ، نواز شریف سے ملاقات میں کرسٹین لغراد نے مختصر وقت میں ملک کو مختلف چینلنجز سے نکالنے اور کلاں اقتصادی استحکام کے حصول کے لیے وزیر اعظم کی کاوشوں کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی شاندار بات ہے کہ آپ نے اپنے مختصر سفر کے دوران بہتر اور مستحکم معاشی پوزیشن حاصل کرلی.
آئی ایم چیف نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی تکمیل دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ لیے مثبت ہے کیوں کہ اسے معتبریت اور استحکام کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔
آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے کہا کہ پاکستان میں معاشی شرح نمو میں بتدریج اضافہ ہوا، مالی خسارہ خم ہوا اور افراط زر میں بھی مسلسل کمی ہورہی ہے۔
انہوں نے پاکستان کے مستحکم ہوتے ہوئے سماجی تحفظ، ٹیکس اصلاحات اور انتظامی اصلاحات کو بھی سراہا۔
اس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستانی معیشت کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے تعاون کی تعریف کی اور کہا کہ موجودہ حکومت نے جامع اصلاحاتی ایجنڈے کو جاری رکھتے ہوئے معاشی استحکام حاصل کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم دہشت گردی، معیشت اور توانائی بحران جیسے مسائل سے کامیابی سے نمٹ رہے ہیں جو کہ ہمیں گزشتہ حکومتوں سے ورثے میں ملے تھے‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہم نے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس ختم کردیے اور ملک سے دہشت گردی کے خطرے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اب بھی دو لاکھ فوجی جوان ملک کے شمالی حصے میں تعینات ہیں‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 24 ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قربانی دینی پڑی جبکہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو بھی 100 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
واضح رہے کہ ستمبر کے آخر میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے توسیعی فنڈ سہولت کا 12 ہواں اور آخری جائزہ کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد قرض کی تقریباً 10 کروڑ 21 لاکھ ڈالر کی آخری قسط جاری کردی تھی۔
4 ستمبر 2013 کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کے لیے تقریباً 6.15 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی جس کی مدت 36 ماہ رکھی گئی تھی۔
اس توسیعی فنڈ سہولت کا مقصد پاکستان کے معاشی اصلاحات پروگرام کو سہارا دینا تھا تاکہ وہ جامع نمو حاصل کرسکے۔
اس سلسلے میں پاکستان کو پہلی قسط کے 54 کروڑ 45 لاکھ ڈالر 2013 میں ہی مل گئے تھے جب کہ اس کے بعد کی قسطیں وقتاً فوقتاً سہ ماہی جائزوں کی تکمیل کے بعد جاری کی جاتی رہیں۔
ایمزٹی وی(بزنس) وفاقی حکومت نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران توانائی کے منصوبوں کیلیے فنڈز کے اجرا کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، پہلی سہ ماہی میں توانائی کے 182منصوبوں میں سے صرف 2 منصوبوں کیلیے فنڈز کا اجرا کر دیا جبکہ 180 منصوبوں کیلیے کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان منصوبوں پر کام شروع نہیں ہو سکا ہے۔
وفاقی حکومت کی طرف سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے بھی ناکام ہونے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں جن منصوبوں کو فنڈز کا اجرا نہیں کیا گیا ہے ان میں اہم منصوبے دیامر بھاشا ڈیم، داسو ڈیم، گولن ہائیڈروپاور، ایل این جی پاور منصوبے سمیت دیگر شامل ہیں۔ وزارت منصوبہ بندی کے دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال 2016-17 کیلیے وزارت پانی و بجلی توانائی سیکٹر کیلیے 182منصوبوں کی منظوری دی گئی ہے اور ان منصوبوں کیلیے ایک کھرب 30 ارب روپے سے زائد فنڈز مختص کیے گئے ہیں لیکن وفاقی حکومت نے پہلی سہ ماہی کے دوران توانائی کے منصوبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے اور صرف 2 منصوبوں کیلیے 6 کروڑ 92لاکھ روپے کے فنڈز جاری کیے ہیں۔
ان منصوبوں میں پش زئی گریڈ اسٹیشن کوئٹہ کیلیے 3 کروڑ 92لاکھ روپے جبکہ ڈیپ سی گوادر کے 132کے وی منصوبے کیلیے 3 کروڑ کے فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ توانائی کے دیگر 180منصوبوں کیلیے پہلی سہ ماہی کے دوران کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں۔ دستاویزات کے مطابق جن منصوبوں کیلیے فنڈز جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
ان میں 4500میگاواٹ کے دیامر بھاشا ڈیم منصوبہ، داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، منگلا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، گولن گول ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ،منگلا پاور اسٹیشن اپ گریڈیشن، تربیلا فور توسیعی ہائیڈرو پاور منصوبہ، وارسک ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن، چترال ہائیڈرو پاور اسٹیشن، 1200میگاواٹ ایل این جی بیس پاور پلانٹ بلوکی، 1200میگاواٹ ایل این جی بیس پاور پلانٹ حویلی بہادر شاہ سمیت دیگر منصوبے شامل ہیں۔
ایمز ٹی وی (تعلیم/ کوئٹہ) بلوچستان پرائیویٹ اسکولز گرینڈ الائنس کے رہنماوں نذر محمدبڑیچ،محمد نواز پندرانی،ملک رشید کاکڑ نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجم اور ہشتم کے امتحانات بورڈ سے لینے کا فیصلہ واپس اور دیگر فوری مطالبات تسلیم کیے جائیں ۔
بصورت دیگر تمام اضلاع میں پرائیوٹ اسکولز کو احتجاجاً بنداور بلوچستان بورڈ سے الحاق ختم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے،یہ بات انہوں نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی،اس موقع پر حاجی سلیم ناصر،حضرت کوثر،عمر فاروق سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
انہوں نے بلوچستان پرائیویٹ اسکولز گرینڈ الائنس جماعت پنجم اور ہشتم کے بورڈ کےامتحانات کو مسترد کرتے ہوئےکہا کہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے بروقت درسی کتب کی عدم دستیابی،10سے 12سال کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا دوسرے امتحانی مراکز تک جانا،بی ای اے سی کے پاس ناکافی سہولیات،تین لاکھ سے زائد امتحانی امیدواروں کیلئے چار افراد پر مشتمل عملہ،امن و امان کی ابتر صورتحال،ایم اے،ایم اے سی کے داخلہ فارم کی شرط سے ذیادہ جماعت پنجم کیلئے شرائط و ضوابط اور سب سے بڑھ کر نظام کی خرابی کی وجہ سے بورڈ کا امتحان وبال ہے۔
انہو ں نے کہا کہ نجی تعلیمی اداروں کی تمام تنظیموں نے مشترکہ طور پر پنجم اور ہشتم کے امتحانات کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا،جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری نے صوبائی وزیر تعلیم کی سربراہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی وزیر تعلیم سے ہماری ایک میٹنگ بھی ہوئی لیکن وزیر تعلیم کی عدم دلچسپی کی وجہ سے تاحال کوئی حل نہیں نکلا ۔
جس کے بعد بلوچستان پرائیویٹ اسکولز گرینڈ الائنس نے فیصلہ کیا ہے کہ صوبے کے عوام کے وسیع تر مفاد اورنجی تعلیمی شعبہ کو بچانے کیلئے عوام کے پاس جائیں گے، اس سلسلے میں صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں،وکلاء،صحافی برادری، تاجران،ارکان اسمبلی،ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی پر مشتمل آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے گی ۔
انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم نے تعلیمی معیار کی بہتری کیلئے یونیسف سے اربوں روپے لئے ہیں مگرتعلیمی نظام کی بہتری کی بجائے اب نجی شعبہ کو سرکاری شعبے کی طرح نقل،سفارش اور کرپشن کے ذریعے قوم کے مستقبل کو داؤپر لگانے کیلئے جماعت پنجم اور ہشتم کے امتحانات بورڈ کے ذریعے لینے کا ظالمانہ فیصلہ کرکے مزید مسائل پیدا کردیئے ہیں۔
ایمز ٹی وی ( تعلیم/پنجاب) منتخب عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے گرلز ہائی سکول کی طالبات کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں ۔جبکہ ہائی اسکول کی تعداد سات سو سے زائدہیں ۔ لیکن عمارات میں گنجائش ختم۔
تحصیل حسن ابدال کے نواحی گائوں بھلڑ جوگی میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں سات سو کے قریب طالبات زیر تعلیم ہیں مگر عمارت میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے آدھی طالبات کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کررہی ہیں ،،ان طالبات کے والدین نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف،صوبائی وزیر تعلیم اور حلقہ کے منتخب نمائندوں سے موجودہ صورتحال کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔
والدین کا کہنا تھا کہ انتخابات کے وقت عوام کو ان کے مسائل حل کرنے کے دلفریب خواب دکھا کر ووٹ لے لئے جاتے ہیں ،اقتدار میں آنے والوں کو پھرغریبوں کا خیال نہیں رہتا ۔
ایمز ٹی وی (تعلیم/فاٹا)زرائع کے مطابق یونیورسٹی کے وائس چانسلرطاہر شاہ نے بتایا کہ قبائلی علاقوں کے نوجوان فاٹا میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
درہ آدم خیل میں یونیورسٹی کے قیام سے انکی دیرینہ اپیل پوری کردی گئی ہے، تاہم اگلے ہفتے سے شروع ہونے والے یونیورسٹی کے پہلے بیچ میں کوئی خاتون شامل نہیں،
حکومت پاکستان کی جانب سے فاٹا کے رہائشیوں کے لیے حال ہی قائم کی گئی ’فاٹایونیورسٹی“ کے پہلے بیچ میں ایک بھی لڑکی نے داخلہ نہیں لیا۔
رواں سال جامعہ میں داخلے کے لیے کسی طالبہ نے رجوع نہیں کیا ، جامعہ کی پہلی جماعت 84 طلبہ پر مشتمل ہے۔
انہوں نے امید ظاہر کی ایک بار جامعہ کامیاب ثابت ہوجائے، خواتین کی جانب سے بھی جامعہ میں داخلے کا حصول شروع ہوجائےگا۔
ایمز ٹی وی (صحت ) ایک پاکستانی خاندان بے تابی سے امریکی ویزہ ملنے کا منتظر ہے کیونکہ ان کی بیمار بیٹی کے لیے وقت تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے۔
چھ سالہ ماریہ ایک ایسے جنیاتی مرض کا شکار ہے جو دنیا میں بہت کم افراد کو لاحق ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کا جسم درد سے تڑپتا رہتا ہے جبکہ جسمانی نشوونما تھم گئی ہے۔
اگرعلاج نہ ہوا تو مستقبل قریب میں وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوجائے گی کیونکہ ریڑھ کی ہڈی کے مہرے متاثر ہوجائیں گے۔
امریکا کے ایک ہسپتال نے ماریہ کی مفت سرجری کی پیشکش کی ہے جس سے اس کی زندگی میں نمایاں بہتری آسکتی ہے۔
تاہم اسلام آباد میں امریکی ویزہ نے دو بار اس خاندان کی امریکا کے ویزے کی درخواست مسترد کردی ہے۔
ماریہ کے والد شاہد اللہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سفارتخانے میں ویزہ اپلیکشن کو دوبارہ جمع کرانے پر انہیں 'انتظار' کرنے کا کہا گیا۔
پریشان اور خوفزدہ شاہد اللہ نے اب ایک امریکی وکیل، فیس بک اور میڈیا سے مدد طلب کرتے ہوئے ایک مہم شروع کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ان کی بیٹی کے لیے آخری موقع ہے۔
ماریہ کا امریکا میں آپریشن دو نومبر کو شیڈول ہے اور شاہد اللہ نے اپیل کی ہے کہ ماریہ کا کیس 'دیگر سے مختلف' ہے۔
انہوں نے کہا ' اگر ماریہ کی سرجری تاخیر کا شکار ہوگئی تو اس کے لیے متعدد مسائل پیدا ہوسکتے ہیں'۔
شاہد اللہ راولپنڈی میں کمبل فروخت کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں۔
ان کے بقول ماریہ کو اگلے بدھ تک سرجری سے قبل ٹیسٹوں کے لیے امریکا پہنچ جانا چاہئے۔
اس بچی کو یہ مرض لگ بھگ چار سال قبل لاحق ہوا تھا جس کے بعد اس کی تشخیص کے لیے خون اور پیشاب کے نمونے بھارت اور جرمنی کی لیبارٹریز میں بھیجے گئے، اسی طرح کے مرض جسے مورکیو سینڈروم کا نام دیا گیا ہے، کے شکار بچوں کے خاندانوں سے رابطہ کیا گیا۔
انٹرنیٹ کی مدد سے شاہد اللہ نے اس مرض کے علاج میں مہارت رکھنے والے ڈاکٹروں کو تلاش کیا اور انہیں ڈیل ویئر کے ایک ہسپتال کے بارے میں علم ہوا جس کے بعد اب وہ ویزہ کے انتظار کررہے ہیں۔
اس سے قبل امریکی ویزہ کے حصول کے لیے شاہد اللہ نے پورے خاندان کے لیے اپلائی کیا تھا مگر جواب میں امریکی حکام نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ پاکستان واپس نہیں آئیں گے۔
مگر اس بار وہ صرف ماریہ، اپنے اور اپنی اہلیہ کے لیے ویزہ لینا چاہتے تھے اور باقی دونوں بچوں یعنی سات سالہ بیٹی اور دو سالہ بیٹے کو رشتے داروں کے پاس چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا ' مجھے نہیں معلوم کہ اب کیا کرنا ہوگا، کس سے رابطہ کروں، ماریہ بہت تکلیف میں ہے، وہ اب پینسل یا قلم تک نہیں اٹھا سکتی'۔
امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے اس حوالے سے بات کرنے سے انکار کیا مگر ان کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں گی۔
ایمز ٹی وی ( تعلیم/پنجاب) پنجاب گروپ آف کالجز راولپنڈی اسلام آباد کے زیرِاہتمام آئی سی ایس پارٹ ون کے طلباء کے مابین ‘‘ لوگو ڈیزائن ’’ کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا ۔
مقابلے کی میزبانی پنجاب کالج کینٹ کیمپس راولپنڈی نے کی۔ مقابلے میں مجموعی طور پر چودہ ٹیموں نے حصہ لیا جو پنجاب کالجز راولپنڈی،اسلام آباد کے طلبہ پر مشتمل تھیں۔ مقابلے کے ججز پروفیسر قاسم رضا اور پروفیسر عمیر علی شاہ تھے ۔
پنجاب گروپ آف کالجز کے ڈائریکٹر پروفیسر چوہدری محمد اکرم نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے مقابلے کے انعقاد کا مقصد طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے ۔
انہوں نے مقابلہ میں شرکت کرنے والے طلبہ ، ان کے اساتذہ اور کالج انتظامیہ کو مبارکباد پیش کی۔ مقابلے کے کوآرڈی نیٹر پروفیسر عاطف نے مقابلے کے قواعد وضوابط سے طلباء وطالبات کو آگاہ کیا۔
پنجاب کالج بہارہ کہو کیمپس کی طالبہ عروج ظریف عباسی نے کہا کہ ایسے مقابلوں کے انعقاد سے ہمارے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے ۔ انہوں نے صحت مندانہ سرگرمیوں کے انعقاد پر پنجاب کالجز کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا۔ منصفین کے فیصلہ کے مطابق پنجاب کالج کینٹ کیمپس کے طلبا ثاقب وحید اور محمد زبیر نے پہلی، پنجاب کالج بہارہ کہو کے طلبہ حمزہ حنیف اور عروج ظریف عباسی نے دوسری اور پنجاب کالج ڈی نائن کیمپس کے عبداللہ عارف اور حمزہ ریاض نے تیسری پوزیشن حاصل کی ۔ پرنسپل پروفیسر امجد علی منہاس نے پوزیشن ہولڈرز میں نقد انعامات تقسیم کیے ۔
اوّل پوزیشن حاصل کرنے والوں کو پانچ ہزار، دوئم کو چار ہزار اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کو تین ہزار روپے کیش انعامات دیئے گئے ۔
پنجاب کالج کینٹ کیمپس پہلی ، بہارہ کہو کیمپس کے طلبہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی ایسے مقابلوں کا مقصد طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے ،چوہدری محمد اکرام
ایمز ٹی وی ( تعلیم/کراچی) وفا قی ہائیر ایجو کیشن کمیشن اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں اپنے ہی مقرر کردہ اہدا ف کے حصول میں ناکام ہوگیا ہے۔
دستا ویزات کے مطابق وفا قی ایچ ای سی میڈ یم ٹرم ڈیولپمنٹ فریم ورک 2010/15کے تحت پانچ سالوں میں پاکستان میں اعلٰی تعلیم کے فروغ کیلئے مختلف اہداف مقرر کئے تھے ۔
جس میں ٹائمز ہائیر ایجوکیشن کی درجہ بندی میں 500دنیا کی ٹاپ جامعات میں 5پاکستانی جامعات کا شامل ہونا تھا۔ دنیا کی بہترین جامعات کے ساتھ مشترکہ طور پر 125اکیڈمک پرو گرامز کا اجراء، پاکستانی جا معات میں 50نئے پیشہ وارانہ ترقی کے مر اکز کا قیام ، جامعات اور انڈ سٹری کے مابین 50مشترکہ پراجیکٹس ، ٹیکنالوجی کے 60مر اکز اور 5ٹیکنالوجی پارک کا قیام نمایاں تھے ۔
لیکن وفا قی ایچ ای سی ان اہداف کے حصول میں ناکام رہ گئی۔ 2014/15/16میں ٹائمز ہائیر ایجو کیشن کی عالمی درجہ بندی کے مطا بق کوئی بھی پاکستانی جامعہ دنیا کی 500بہترین جا معات میں جگہ نہ بناسکی۔
جبکہ بین الاقوامی جامعات کے اشتراک سے 125مشترکہ اکیڈمک پروگرامز کا ہدف بھی ممکن نہ بنایا جا سکا بلکہ برطانیہ کی بہترین لنکا سٹر یونیورسٹی کے ساتھ کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفار میشن ٹیکنا لوجی کے دوہری ڈگری پرو گرام کی گزشتہ دو سالوں میں بھر پور مخا لفت کی گئی ۔
جامعات میں پانچ ٹیکنالوجی پارکس میں سے صرف ایک کا قیام عمل میں لایا جا سکا جبکہ ٹیکنالوجی کے 60 مراکز میں سے 20سے زائد قائم نہ ہو سکے ،دوسری جانب اعلی تعلیم تک رسائی میں 10فیصد اضافہ کا ہدف بھی حا صل نہ کیا جا سکا ، ماہرین تعلیم کے مطا بق پاکستان میں اعلی تعلیم کا شعبہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے با وجود صو بوں کو منتقل نہ ہو نے کی وجہ سے زبوں حالی کا شکا ر ہے ۔
وفاقی ایچ ای سی کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں 160سے زائد غیر مستند اعلی تعلیمی اداروں کی موجودگی اعلی تعلیم کے معیار پر سوا لیہ نشان ہے ، ماہرین تعلیم کے مطابق کیو ایس کی حالیہ رینکنگ کے مطابق دنیا کے پانچ میں سے چار بہترین اعلی تعلیم کے نظام کے حامل ممالک کا تعلق وفا قی طرز حکومت سے ہے جہاں پر پاکستان کے برعکس اعلی تعلیمی شعبہ کے فروغ کی ذمہ داری وفا قی اکا ئیوں کے دائرہ اختیا ر میں ہے۔